جو بھی انسان دنیا میں آیا ہے اسے ایک ایک دن واپس اپنے خالق حقیقی کے پاس جانا ہوتا ہے لیکن بعض اوقات ایسے واقعات پیش آ جاتے ہیں جنہیں صدیوں تک بھلایا نہیں جا سکتا ہے۔ خاص کر ایسے شعبوں میں جن کے ساتھ کروڑوں عوام براہ راست وابستہ ہوتے ہیں۔ سیاست، شوبز ہو یا کھیل کا میدان ان کا ہر فرد لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔ گذشتہ دنوں کرکٹ کے میدان میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے دنیائے کرکٹ کو سوگوار کر دیا۔ آسٹریلیا کے فلپ ہیوز کو ڈومیسٹک کرکٹ میں لگنے والے باونسر سے ہونے والی ہلاکت عرصہ دراز تک کھلاڑیوں اور شائقین کرکٹ کے ذہنوں میں کھومتی رہے گی۔ فلپ ہیوز دنیائے کرکٹ کا ایک ابھرتا ہوا ستارہ تھا جو اب غروب ہو چکا ہے۔ آسٹریلوی کرکٹ ٹےم کے بلے بازآنجہانی فلپ ہیوز کی ناگہانی موت پردنیائے کرکٹ اداس ہوگئی۔ فلپ ہیوز جن ک یتین روز بعد 26 ویں سالگرہ منائی جانی تھی شاید قدرت کو انہیں یہ دن نہیں دکھانا تھا اور اس سے پہلے ہی وہ خالق حقیقی سے جا ملے۔ منگل 25 نومبر کو سڈنی میں شیفیلڈ شیلڈ کے میچ کے دوران سین ایبٹ کا باونسر فلپ ہیوزکے سر پر لگا جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے تھے، ہیوزکوفوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا جہاں ان کی سرجری کی گئی اورانتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رکھا گیا، ہیوز دو روز تک کوما میں رہنے کے بعد زندگی کی بازی ہارگئے۔ ان کی عمر صرف پچیس برس تھی۔تیس نومبر انیس سو اٹھاسی کو آسٹریلوی ریاست نیو ساو¿تھ ویلز میں پیدا ہونے والے فلپ جیول ہیوز کا شمار آسٹریلیا کے کامیاب نوجوان کھلاڑیوں میں ہوتا تھا۔ اٹھارہ برس کی عمر میں فرسٹ کلاس کیرئیر کے پہلے میچ میں ہی انہوں نے اکیاون رنز کی اننگز کھیل کر اپنے روشن مستقبل کی نوید سنادی۔ فروری دو ہزار آٹھ میں وکٹوریہ کے خلاف ایک سو سولہ رنز کی باری نے انہیں شیفیلیڈ شیلڈ پیورا کپ فائنل کا سب سے کم عمر سنچری میکر بنا دیا۔بریڈ مین ینگ کرکٹر کا ایوارڈ جیتنے کے بعد انہوں نے فروری دو ہزار نو میں جنوبی افریقہ کے خلاف جوہانسبرگ ٹیسٹ میں ڈیبیو کیا اور پہلی اننگز میں صفر پر آو¿ٹ ہونے کے بعد دوسری باری میں پچہتر رنز کی عمدہ اننگز کھیلی۔ ڈربن میں کھیلے گئے دوسرے ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں سنچریاں بنا کر وہ میچ کی دونوں اننگز میں تھری فیگرز اننگز کھیلنے والے دنیا کے سب سے کم عمر کرکٹر بن گئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف بیس برس تھی۔دو ہزار تیرہ میں آسٹریلین ڈومیسٹک پلئیر آف دی ائیر کا خطاب حاصل کرنے والے ہیوز نے چھبیس ٹیسٹ میں بتیس اعشاریہ چھ پانچ کی اوسط سے پندرہ سو پینتیس رنز اسکور کیے جس میں ان کی تین سنچریاں اور سات نصف سنچریاں شامل تھیں۔ پچیس ون ڈیز میں دو سنچریوں اور چار نصف سنچریوں کی مدد سے وہ آٹھ سو چھبیس رنز بنانے میں کامیاب رہے۔ یہاں ان کا ایورج تقریباً چھتیس رہا۔ پاکستان کے خلاف بارہ اکتوبر کو تیسرا ون ڈے ان کے کیرئیر کا آخری انٹرنیشنل میچ تھا۔ انہوں نے ایک ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھی شرکت کی۔
آسٹریلوی کرکٹ ٹےم کے بلے باز آنجہانی فلپ ہیوز گیند لگنے سے جاں بحق ہونے والے د±نیا کے ساتویں کرکٹر بن گئے۔ آسٹریلیاکے ا±بھرتے ہوئے بیٹسمین باو¿نسر لگنے کے بعد زندگی کی جنگ بھی ہارگئے جو دورانِ میچ گیند لگنے سے جاں بحق ہونے والے د±نیا کے ساتویں کھلاڑی بن گئے۔ فلپ ہیوز سے قبل بھی کھیل کے دوران گیند لگنے سے6 کھلاڑیوں کی اموات بھی ہوچکی ہیں۔ جن میں دو پاکستانی کرکٹر بھی شامل ہیں۔ رمن لامبا ایک ہندوستانی بلے باز تھے جنہوں نے ہندوستان کے لئے چار ٹیسٹ اور 32 ون ڈے میچ کھیلے تھے۔جو فیلڈنگ کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔ وہ فارورڈ شارٹ لیگ پر فیلڈنگ کر رہے تھے، جب محراب حسین کی طرف سے کھیلے گئے ایک شاٹ میں گیند سیدھا ان کے سر پر لگی۔ رمن کی چوٹ دیکھنے میں معمولی لگی لیکن انٹرنل انجری ہونے کی وجہ وہ کوما میں چلے گئے تھے اور وینٹی لیٹر پر تین دنوں تک رہنے کے بعد ان کی موت ہو گئی تھی۔17 دسمبر 2013 کے دن ایک اور کرکٹر کی میدان پر بال لگنے کی وجہ فوری طور موت ہو گئی تھی۔ پاکستان کے 22 سال کے نوجوان کرکٹر ذوالفقار بھٹی کی چھاتی پر گیند لگنے سے موت ہو گئی تھی۔ پاکستان کے ہی ایک اور کرکٹر عبدالعزیز کی بھی موت گیند لگنے سے ہوئی تھی۔ عزیز اس وقت 17 سال کے تھے جب وہ چھاتی پر گیند لگنے کے بعد جانبرنہیں ہوسکے تھے لیکن اس معاملے میں غور کرنے والی بات یہ ہے کہ عزیز کی موت آف بریک گیندلگنے سے ہوئی تھی۔ڈیرین رینڈول ساو¿تھ افریقہ کے وکٹ کیپر بلے باز تھے، جن کی موت بھی میدان پر گیند لگنے کی وجہ سے ہوئی تھی،ا±ن کی موت 27 اکتوبر، 2013 کو اس وقت ہوئی جب ایک تیز گیند ان کے سر پر آ کر لگی۔کھیل کے دوران دو انگلش پلیئرز جارج سمرج اور الاعیان پھولے کی جان بھی میچ کے دوران گیند لگنے سے گئی تھی۔
باو¿نسر لگنے سے زخمی ہونے والے فلپ ہیوز کے ہیلمٹ مینوفیکچرر کے مطابق آسٹریلوی بلے باز ہیلمٹ کا جدید ترین ماڈل نہیں پہنے ہوئے تھے۔برطانوی کمپنی مسوری سر کی حفاظت کرنے والی پوشاک بنانے کی نامور کمپنی نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ وہ حادثے کی مزید فوٹیج طلب کر رہے ہیں تاکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ ہیوز کو گیند کہاں لگی ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ جو فوٹیج ابھی دستیاب ہے اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہیوز کو ہیلمٹ کے گرل کے پیچھے والے حصے میں گیند لگی اور گیند نے اس سابقہ ماڈل والے ہیلمٹ کو مکمل طور پر مس کر دیا۔ اعلامیے میں بتایا گیا کہ یہ ہیلمٹ کا غیر محفوظ حصہ ہوتا ہے جہاں سر اور گردن ہوتی ہے تاہم اسے بلے باز کی آسانی سے سر ہلانے کے غرض سے اس طرح بنایا جاتا ہے۔ اس ہیلمٹ کے جدید ترین ماڈل میں اس حصے کو مزید محفوظ بنایا گیا ہے تاہم اس سے بلے باز کو الجھن محسوس نہیں ہوتی۔تاہم یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ اگر ہیوز نے یہ ہیلمٹ پہنا بھی ہوتا تو آیا وہ اس انجری سے بچ پاتے یا نہیں۔مسوری کے مینیجنگ ڈائریکٹر سیم ملر نے کہا کہ ہیلمٹ مینوفیکچررز بہتر سے بہتر مصنوعات بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس حوالے سے دنیا بھر کی گورننگ اتھارٹیز سے رابطہ بھی کیا جاتا ہے۔مسوری کے ترجمان نے بتایا کہ نئے ہیلمٹ اگست 2014 سے فروخت کے لیے دستیاب ہیں۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل، پاکستان، بھارت، ویسٹ انڈیز، جنوبی افریقہ کے کرکٹ بورڈز اور کھلاڑیوں نے دکھ کا اظہارکرتے ہوئے ان کے اہل خانہ سے تعزیت کی ہے۔سر پر باﺅنسر لگنے سے زخمی فل ہیوز 3 دن زندگی اور موت میں کشمکش میں رہنے کے بعد جمعرات کو چل بسے تھے۔ فل ہیوز کی موت پرمیلبورن کرکٹ گراونڈ میں پرچم سرنگوں رہے گا۔آسٹریلیا کے وزیراعظم ٹونی ایبٹ نے فلپ ہیوز کی وفات پرتعزیت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'ان کی موت نہ صرف دنیائے کرکٹ کے لیے ایک افسوس ناک دن ہے بلکہ ان کے خاندان کے لیے بھی ایک بہت بڑا صدمہ ہے۔آئی سی سی کی جانب سے جاری بیان میں فل ہیوز کی ناگہانی موت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے چیئرمین این سری نواسن اور چیف ایگزیکٹو ڈیو رچرڈسن نے کہا ہے کہ فل ہیوز کی موت کرکٹ کیلئے ناقابل تلافی نقصان ہے ،وہ ایک نوجوان اور مستقبل کے سٹار کھلاڑی تھے جن کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ انہوں نے کہاکہ فل ہیوزکی موت کے بعد پیدا ہونے والا خلا¾ کرکٹ آسٹریلیا کیلئے پر کرنا آسان نہیں ہوگا۔آئی سی سی حکام نے فل ہیوز کے لواحقین سے اظہار افسوس کرتے ہوئے غم کی اس گھڑی میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کا عزم کیا۔ قومی ٹیم کے منیجر معین خان نے میڈیا کو بتایا کہ ہیوز کی موت سے دونوں ٹیمیں صدمے کا شکار ہیں۔ معین خان نے کہا کہ ہیوز سے آسٹریلین ٹیم کے دورے کے دوران ملاقات ہوئی تھی ، وہ انتہائی ہنس مکھ انسان تھے اور کرکٹ سے محبت کرنے والے کھلاڑی تھے ، ان کی موت ہم سب کیلئے بڑا صدمہ ہے۔ پاکستان کے سابق کپتان وسیم اکرم نے کہا کہ فل ہیوز کی موت بہت بڑا دھچکا ہے، میری دعائیں ان کے خاندان کے ساتھ ہیں۔سابق کپتان ویسٹ انڈیزویو رچرڈزنے کرکٹر کی موت پر دکھ کا اظہار کیا اور کہا کہ میری ہمدری ہیوز خاندان کیساتھ ہے۔سابق جنوبی افریقی کپتان گراہم سمتھ نے فل ہیوز کی موت کو غم ناک خبر قراردیا اور کہا کہ ان کی موت پرجذبات کا اظہار ممکن نہیں۔سابق آسٹریلوی فاسٹ بالر گلین میک گرا،عمر اکمل ، روہیت شرما،اے بی ڈی ویلئز شان پولاک،شعیب اختراوربریٹ لی نے فل ہیوز کی موت کو دل دکھانے والی خبر اور بڑا دھچکا قرار دیا اور کہا کہ آج کرکٹ کیلئے بہت برا اور افسوسناک دن ہے۔ ہیوز کی موت کا صدمہ لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا ،شاندار کھلاڑی کی کمی کو محسوس کرینگے۔ پی سی بی چیئرمین شہریار خان نے فل ہیوز کے انتقال پر اظہار افسوس کیا اور کہا کہ فل ہیوز کے خاندان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔ پی سی بی نے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ شارجہ ٹیسٹ کے دوسرے دن کے کھیل سے قبل ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرینگے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نے نیوزی لینڈ کرکٹ بورڈ کے ساتھ باہمی مشاورت کر کے شارجہ میں جاری ٹیسٹ میچ کے دوسرے روز کا کھیل منسوخ کر دیا تھا تاکہ آسٹریلوی کھلاڑی کے غم میں برابر کا شریک ہوا جا سکے۔
آسٹریلوی کرکٹ ٹےم کے بلے باز آنجہانی فل ہیوز کی موت نے کرکٹ میں نئے مباحثہ کو جنم دیا ہے۔ بعض کا خیال کہ باونسرز بیٹسمین کےلئے خطرناک ہے جبکہ بعض نے اسے کھیل کی خوبصورتی قرار دیدیا ۔ ویسٹ انڈیز کے سابق بیٹسمین برائن لارا نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ سر پرباونسر لگنے سے شدید چوٹیں لگتی ہیں جس سے پلیئرز کی یاداشت بری طرح متاثر ہوتی ہیں لیکن باونسر فاسٹ بولر کا خاص ہتھیا رہے۔ میرے خیال میں باونسر کو کرکٹ سے ختم کرنے سے کھیل کی خوبصورتی ماند پڑ جائیگی۔سابق آسٹریلوی اسپنرشین وارن نے کہا کہ اس وقت فل ہیوز موت اور زندگی کی کشمکش میں ہیں اوریہ ہم سب کےلئے بہت دکھ کی بات ہے لیکن کھیل میں باونسر کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔باونسر فاسٹ بولر کی ایک خاص حکمت عملی ہے جس سے بیٹسمین کو دباو میں رکھا جاسکتا ہے۔نیوزی لینڈ کے کپتان برینڈ میک کولم نے کھیل میں کوئی بھی کھلاڑی کسی بھی وقت انجری کا شکار ہوسکتا ہے اور اس طرح کے حادثات ہوتے رہتے ہیں لیکن باونسر کوکھیل سے ختم کرنا مسئلے کا حل نہیں۔