”جب کوئی وکیل اونچا بولے تو سمجھ جاتے ہیں اسکے پاس کہنے کو کچھ نہیں“

Nov 29, 2014

اسلام آباد (صلاح الدین خان سے) سپریم کورٹ میںایک مقدمہ کے دوران وکیل شعیب شاہین کے اونچی آواز میں دلائل دینے پر ججز نے دلچسپ ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ جب کوئی وکیل زور دار اونچی آواز میں دلائل دینے کی کوشش کرتا ہے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ اس کے پاس موقف میں کچھ کہنے کو نہیں ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ چائنیز کہاوت ہے کہ انسان کے پاس جب کچھ کہنے کو نہیں ہوتا تو وہ اونچی آواز میں بات کرنا شروع کردیتا ہے جبکہ جسٹس انور ظہر جمالی نے کہا ہمیں استادوں نے بتاےا کہ جب کوئی وکیل کسی مقدمہ میں ڈھیر ساری کتابوں کے ساتھ دلائل دینے کے لئے روسٹرم پر آئے تو سمجھ لینا کے اس کے پاس اپنے موقف میں کوئی وزن دار دلیل نہیں ہے۔ مذکورہ ریمارکس انہوں نے او جی ڈی سی ایل کے ریٹائر ڈ افسران عبدالشکور و دیگر بنام او جی ڈی سی ایل پنشن میں اضافوں سے متعلق کیس میں دیئے فریقین کے وکیل شعیب شاہین نے اپنے دلائل میں کہا کہ محکمہ کے بورڈ نے فیصلہ کےاجس کے مطابق میرے موکل کو اضافی نئے رولز کے مطابق اضافی پنشن نہیں دی جارہی وہ 30جون 2012کو ریٹائرڈ ہوئے جبکہ پنشن اضافے کے آرڈر تب ہی آگئے تھے مگر فائنل عمل درآمد کو نوٹیفیکشن 2013میں جاری ہوا عدالت نے قرار دےا کہ یہ نہیں ہو سکتا ہے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کو اضافی پنشن کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے پنشن دی جائے آپ پر یہ احکامات قوائدو ضوابط کے تحت لاگو نہیں ہوتے آپ پہلے محکمہ چھوڑ گئے ہیں بعدازاں بورڈ کی صوابدید ہے وہ کچھ کرے تو کر سکتا ہے، بعدازاں عدالت نے کیس کا فیصلہ او جی ڈی سی ایل بورڈ کو دو ماہ میں کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ہے۔    

ریمارکس


مزیدخبریں