اسلام آباد (نوائے و قت نیوز+ آن لائن) سپریم کورٹ نے ملک بھر میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کی تقرریوں کا عمل مکمل کرکے تیس روز میں رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا ہے جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس میں کہا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز ”ان دی لائن آف فائر“ پر ہیں کسی کو اس کا احساس تک نہیں‘ پولیو مہم کے دوران 42 شہید ہوچکیں۔ 4 کو دو روز قبل شہید کیا گیا‘ صوبائی حکومتیں ملازمتیں دے کر احسان نہیں کر رہیں‘ ہم ضدی خچر کی طرح کھینچ کھینچ کر اپنے حکم پر عملدرآمد کروا رہے ہیں‘ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو سکیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے جب تک انہیں سکیورٹی نہیں ملے گی یہ کام کیسے کریں گی۔ انہوں نے یہ ریمارکس بشریٰ ارائیں کی درخواست پر دئیے۔ کیس کی سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ اس دوران سندھ اور بلوچستان حکومتوں نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے تقرر نامے جاری کرنے سے متعلق بیان حلفی جمع کرائے جس میں انہوں نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ حکومتوں نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کے تقرر نامے ان کے گھروں تک پہنچاد ئیے ہیں۔ اب اس حوالے سے مزید کسی چیز کی گنجائش نہیں رہتی۔ درخواست گزار بشریٰ ارائیں نے عدالت کو بتایا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو سکیورٹی نہیں دی جارہی۔ حکومتیں ان سے ایسے برتاﺅ کررہی ہیں جیسے وہ انسان نہیں روبوٹ ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز پولیو مہم میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں اس کے باوجود کہ انہیں شہید کیا جارہا ہے تب بھی وہ اپنے فرائض ادا کرنے کیلئے تیار ہیں۔ صوبائی حکومتیں ٹس سے مس نہیں ہورہیں۔ اس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ضدی خچر کی طرح کھینچ کھینچ کر اپنے حکم پر عملدرآمد کرا رہے ہیں۔ پولیو مہم کے دوران لیڈی ہیلتھ ورکرز کو شہید کیا گیا۔ یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں ہے۔ قوم کی بیٹیوں کو نہ ستایا جائے۔ صوبائی حکومتیں سمجھتی ہیں کہ وہ ملازمتیں دے کر احسان کر رہی ہیں۔ حکومتوں کا ایسا کوئی احسان نہیں۔ روزگار کی فراہمی میں مدد دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو سکیورٹی دینا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 30 روز کیلئے ملتوی کر دی۔ سپریم کورٹ نے صوبہ بلوچستان اور سندھ کو ہدایت کی کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کی مستقلی اور تنخواہوں کی ادائیگی کے بارے میں دس دن کے اندر عدالت میں بیان حلفی جمع کرائیں۔ سندھ کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل شفیع چانڈیو نے بیان حلفی جمع کراتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا کہ سندھ کے 20 اضلاع میں لیڈیز ہیلتھ ورکرز کو مستقل کر دیا گیا ہے صرف کراچی اور سکھر سمیت تین اضلاع رہتے ہیں جہاں مستقلی کا کام ایک ہفتے کے اندر مکمل کر لیا جائے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سندھ حکومت کہتی ہے کہ انہوں نے ورکرز کو مستقل کر کے بے نظیر بھٹو کا خواب پورا کر دیا ہے بے شک صوبائی حکومتیں کریڈٹ لیں لیکن کارکنوں کو مستقل کر کے عوام کے سامنے سچ بولیں۔ خیبر کے پی کے اور پنجاب نے بڑی مشکل سے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مستقل کرنے کا کام مکمل کر لیا ہے۔ حکومتوں کو چلانا عدالتوں کاکام نہیں ۔ عدالت چاہتی ہے کہ اس کے فیصلوں پر عملدرآمد ہو۔ بلوچستان حکومت کے نمائندے محمد فرید نے بتایا کہ بلوچستان کے 13 اضلاع میں 7200 لیڈیز ہیلتھ ورکرز کو مستقل کر دیا گیا ہے اور ان کو تقرر نامے پہنچا دیئے گئے ہیں صرف سات اضلاع میں ان کو مستقل کرنے کا کام باقی ہے جو جلد مکمل کر لیا جائے گا۔ سندھ کے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو روزانہ کی بنیاد پر 1700 تقرر نامے جاری کئے گئے، گھروں پر تقرر ناموں کو ارسال کرنے کیلئے پہلے ٹی سی ایس سے معاہدہ کیا گیا تھا لیکن کسی تنازع کے باعث ٹی سی ایس نے معاہدہ ختم کر دیا ہے اب دوسری کمپنی کے ذریعے بقایا لیڈی ہیلتھ ورکرز کو تقرر نامے بھیجے جا رہے ہیں۔ بلوچستان کے نمائندے نے بتایا کہ تقرر ناموں پر رشوت لینے کے الزام میں پانچ ڈی سی اوز کو معطل کر دیا گیا۔ انہوں نے عدالتوں سے حکم امتناعی لے لیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ پتہ نہیں کہ آپ لوگوں کو نیند کس طرح آتی ہے۔ دوران سماعت ایک موقع پر عدالت نے کہا کہ قبرستان ان لوگوں سے بھرے پڑے ہیں جو دنیا کیلئے خود کو ناگزیر سمجھتے تھے۔
سپریم کورٹ