مسلم دنیا پیرس میں 14نومبر کی شب ہونے والی دہشتگردی کے بعد سے وضاحتوں میں مصروف ہے کہ ’’ہم مسلمان دہشتگرد نہیں ہیں‘‘ اسی طرح کی وضاحتیں نائن الیون کے بعد بھی مسلمان ممالک کی طرف سے دی گئی تھیں تاہم اسکے باوجود افغانستان عراق و لیبیا میں مسلمانوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ جس کا ایک ہی مطلب نکلتا ہے کہ مسلمانوں کی وضاحتوں کو قبول نہیں کیا گیا اور اب بھی فرانس نے دہشتگردی کے جواب میں شام میں داعش کے ٹھکانوں پر حملوں کے نام سے بمباری کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ شروع کیا ہے اسکے نتیجے میں کتنے داعش والے نشانہ بنے ہیں فی الحال اعداد و شمار سامنے نہیں آئے البتہ فرانسیسی طیاروں سے کی جانیوالی راکٹ و بمباری کی وجہ سے سینکڑوں کی تعداد میں مرنے والے بے گناہوں کی تفصیلات ویڈیو فوٹیج اور تصویروں کے ذریعے خود مغربی میڈیا منظر عام پر لا رہا ہے مرنے والوں میں معصوم بچوں اور عورتوں کی بڑی تعداد شامل ہیں اس طرح کے فرانسیسی ردعمل سے ظاہر ہو رہا ہے کہ غصہ صرف داعش کیخلاف نہیں ہے لیکن اسکے باوجود مسلمانوں کی طرف سے اپنی صفائی میں وضاحتیں دینے کا عمل جاری ہے جو شاید مغربی اقوام کی تشفی و تسلی کیلئے ضروری بھی ہیں۔ کچھ اس طرح کی وضاحتی رویہ ہمارے سابق صدر نے بھی نومبر 2008ء میں ممبئی میں ہوٹل اوبرائے و تاج محل پر ہونیوالے دہشتگردی کے فوری بعد اختیار کیا تھا جسکے بعد سابق صدر نے تو اس مسئلے پر چپ سادھ لی مگر پاکستانی قوم وضاحتوں پر وضاحتیں کرتی چلی آرہی ہے کہ ’’نیو دہلی‘‘ اجمیر شریف حیدر آباد دکن ‘ مالے گاؤں‘ اودھ پور اور سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں‘ جنوری 1999 میں اڑیسہ کے چرچ پر حملوں (جس میں آسٹریلوی پادری گراہم اپنے دو کمسن بیٹوں 6برس کے ٹموتھی ‘ 10 سالہ فلپ کے ساتھ زندہ جلا دئیے گئے تھے) اور بھارت میں دہشتگردی کا نشانہ بنائی جانیوالی دیگر مسیحی عبادت گاہوں کی طرح پاکستان ممبئی ہوٹلوں پر حملوں میں ملوث نہیں ہے۔ تاہم بھارت پاکستان کی وضاحت تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور ممبئی حملے کی بنیاد پر 2008ء سے پاکستان کیخلاف عالمی سطح پر پروپیگنڈے کا محاذ گرم کئے ہوئے ہے پیرس میں حملوں کے بعد بھارتی الیکٹرانک میڈیا نے پیرس سے متعلق خبریں نشر کرتے ہوئے پس منظر میں ممبئی حملوں کی فلمیں چلائیں تو شاید اسی سے متاثر ہو کر بی بی سی جیسے عالمی شہرت یافتہ نشریاتی ادارے نے بھی پیرس میں دہشتگردی کے تناظر میں ممبئی ہوٹلوں پر حملوں کے حوالے سے پروگرام کر ڈالا اور ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ممبئی اور پیرس دونوں مقامات پر دہشتگردوں کی طرف سے حملوں کا انداز ایک جیسا تھا۔ ممبئی حملوں کے واقعات کو یاد کریں تو پاکستانی وقت کیمطابق 26 نومبر 2008ء کی شب رات نو بجے کے قریب بھارتی ٹی وی چینلوں پر خبر بریک ہوئی کہ دہشتگردوں کے ایک گروہ نے ممبئی میں ہوٹل اوبرائے اور تاج محل پر حملہ کر کے وہاں موجود لوگوں کو یرغمال بنا لیا ہے بھارتی میڈیا نے تھوڑی ہی دیر بعد اپنی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا پاک فوج‘ آئی ایس آئی اور لشکر طیبہ کو حملے میں ملوث قرار دیکر پروپیگنڈے کی انتہا کر دی گئی کچھ دیر بعد بھارتی وزراء اور ریٹائرڈ فوجی جرنیل و افسران اور سول بیوروکریٹ بھارت کے مختلف ٹیلی ویژن چینلوں کے سٹوڈیوز میں براجمان نظر آئے ‘ یوں لگتا تھا کہ جیسے جنگ کا ماحول اور اسی حوالے سے طویل دورانیے کی نشریات کا اہتمام کیا جا رہا ہو۔ بھارتی و بین بین الاقوامی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے ممبئی کے دونوں ہوٹلوں کے باہر سے دنیا کو صورتحال سے آگاہ کرنے کیلئے ایک ایک پل کی خبر دے رہے تھے دہشتگرد اندر کس طرح کی کارروائیوں میں مصروف تھے باہر کسی کو کچھ معلوم نہیں تھا بس فائرنگ اور ہلکے دھماکوں کی آواز سنائی دے رہی تھی اس حالت میں دو گھنٹے کا وقت گزر گیا توا چانک ایک خبر نشر ہوئی کہ مہاراشٹر انسداد دہشتگردی سکواڈ کے سربراہ ہمیت کرکرے دہشتگردوں کے ہاتھوں مارے گئے ہیں انکے ہمراہ کرکرے کے ڈپٹی چیف کامتے اور اس ادارے میں پولیس سے ڈیپوٹیشن پر آنیوالے ایڈیشنل پولیس کمشنر وجے سلاسکر بھی قتل کر دیئے گئے ہیں یہ خبر پاکستان سمیت بیمنت کرکرے کے کارناموں سے بے خبر باقی دنیا کیلئے غیر اہم تھی لیکن امریکہ کی حکومت اور ممبئی کا باقی میڈیا جانتے تھے کہ بھارت میں ہندو انتہا پسند بھارت سرکار اور ملٹری انٹیلی جنس را آخر کار انتہائی ضدی‘ ہٹ کے پکے ایسے افسر کو اسکے تمام ساتھیوں سمیت راہ سے ہٹانے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس نے بھارتی فوج کے حاضر سرسو کرنل شری کانت پروبت کو گرفتار کر کے اس سے بھارت کے اندر ہونیوالے بہت سے دھماکوں بمعہ سمجھوتہ ایکسپریس کی تباہی کا اقرار کرا لیا تھا کہ ان تمام کارروائیوں میں بھارت خود ملوث ہے۔
افسوس عدالتی کارروائی کی تمام خبریں بھارتی میڈیا میں ’’بڑی خبر‘‘ کے طورپر نشر اور شائع ہوئیں لیکن پاکستان کی طرف سے نہ جانے کیوں خاموشی اختیار کی گئی مگر 26نومبر 2008ء کی شب جب دہشتگردی کی آڑ میں بیمت کرکرے اور اسکے ساتھیوں کا کام تمام کر دیا گیا اور بھارت سرکار و میڈیا کی طرف سے پاکستان کو ملوث کر کے الزام تراشی کا سلسلہ زوروں پر تھا تو نصف رات کو پاکستان کے صدر کی طرف سے ایک بیان جاری ہوا کہ ’’ممبئی حملوں میں حکومت یا حکومتی ادارے نہیں پاکستان کے نان اسٹیٹ ایکٹرز ملوث ہیں‘‘ بس پھر کیا تھا بھارت سرکار کی چاندی ہو گئی‘ پاکستان خود نہ سہی پاکستان کے نان اسٹیٹ ایکٹر ہی سہی بھارت کو اپنے الزامات کیلئے پاکستان کے اندر سے سند حاصل ہو گئی‘ اس وقت سے آج تک بھارت پاکستان سے ممبئی حملوں کا حساب مانگ رہا ہے اور ہم وضاحتیں کیسے چلے جا رہے ہیں کہ پاکستان ملوث نہیں ہے‘ کاش ہمارے سابق صدر نے پاکستان سے نان اسٹیٹ ایکٹرز کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا بیان نہ دیا ہوتا۔