پاکستان اقوام عالم کی تاریخ کے ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک طرف تو اس کا تابناک مستقبل ہے اور دوسری طرف اندھیرا ہی اندھیرا۔ ہماری اڑسٹھ سالہ تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمارے حکمرانوں کے بے بصیرت فیصلوں کی وجہ سے یہ نظریاتی مملکت ایسے پیچیدہ موڑ پر پہنچی ہے کہ ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے مرہون منت اور قرض کی معیشت پر زندہ ہیں۔
گزشتہ چھ دہائیوں میں ہم نے بھارت سے تین جنگیں لڑیں۔ ملک دو لخت ہوا۔ دو وزرائے اعظم لیاقت علی خان اور بے نظیر بھٹو سرعام گولی کا نشانہ بنے۔صدر ضیاء الحق کا طیارہ ایک سازش کے نتیجے میں حادثے کا شکار ہوا۔ وزیر اعظم نواز شریف پارلیمنٹ میں دو تہائی ا کثریت ہونے کے باوجود معزول اور جلا وطن ہوئے ۔ صدر مشرف ابھی تک" حفاظتی قید"میں ہیں۔ ذرا سوچئے تو جس ملک کی مختصر سی تاریخ میں صدر اور وزرائے اعظموں کا یہ حشر ہوا ہو وہاں کی طرز حکمرانی کو کس طرح مطمئن ہوا جا سکتا ہے ۔دوسری طرف دیکھئے توپاکستان ایک ایسا زرخیز ملک جسے قدرت نے چار موسم پہاڑ،صحرا اور زرخیز میدانی علاقوں سے نوازا ہو جس کے دریائوں کا پانی میٹھا اور زراعت کیلئے معاون ہو، پاکستان کا سمندر اور ساحلی پٹی جغرافیائی حکمت عملی کے اعتبار سے دنیا بھر کیلئے انتہائی کشش کا باعث ہو۔پاکستان عالم اسلام کی پہلی اور واحد ایٹمی طاقت ہو۔جس کے عوام جفا کش اور محنتی ہوں۔ہماری فوج نہ صرف یہ کہ علاقائی اعتبار سے مضبوط بلکہ دنیا بھر میں ممتاز مقام رکھتی ہو اور اس میں وہ صلاحیت اور عزم ہو کہ وہ عالمی دہشتگردوں کے خوفناک ٹھکانوں اور چھپے دشمنوں کی تاریخی بیخ کنی کر سکے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ ہم دوسروں کے دست نگر رہیں اور پاکستان کا عام شہری صحت عامہ، تعلیم اور سیکورٹی کی بد ترین صورتحال میں زندگی بسر کر سکے۔یہ ہیں وہ نکات جن پر ہماری حکومت صاحب الرائے افراد اور میڈیا کو بحث کرنی چاہئیے۔ہمیں یہ طے کرنا ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک ہم اس صورتحال سے کیوں دو چار ہیں۔ ان معاملات پر غور کرنے کیلئے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ہمیں اپنی غلطیوں کی نشاندہی کر کے اصلاح کا اہتمام کرنا ہے۔ان نا گفتہ نہ حالات کی وجہ صرف ہماری سمت کا درست نہ ہونا ہے۔ کبھی ہم اسلام کا نعرہ لگاتے ہیں کبھی سب سے پہلے پاکستان ،کبھی جمہوریت، کبھی اشرافیہ اور کبھی کرپشن کے خاتمے کا۔ہم کبھی امریکہ کے حاشتہ بردار بنتے ہیں تو کبھی چین کے ہمنوا اور کبھی روس کے مخالف تو کبھی ملت اسلامیہ کے ٹھیکیدار کبھی اظہار رائے پر پابندی اور سنسر شپ کو اصلاح احوال کا راستہ قرار دیتے ہیں تو کبھی میڈیا کی مدر پدر آزادی، کبھی حج خریدنے کے دعویٰ دار ہوتے ہیں تو کبھی عدلیہ آزادی کی تحریک میں تمام جمہوری حکومتوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ کبھی ہم سلطنت مغلیہ کے شہزادوں کی طر ح حکومت کرنا چاہتے ہیں تو کبھی ہم مسجد میں بیٹھ کر حکمرانی کے خواہشمند ہوتے ہیں۔اس طرح کے تضادات من حیث القوم ہم میں سرایت کر چکے ہیں۔ ان سب عوامل کی بنیاد ی وجہ ہمارے معاشرے اور طرز حکمرانی میں یکسوئی اور سمت کا درست نہ ہونا ہے۔ اس حوالے سے ایک دیہاتی مثال ہمارے مسئلے کو سمجھنے کیلئے حسب حال ہے۔"ایک صاحب کے ہاں رات کو مہمان آ گیا، اتفاق سے گھر میں چار پائی کی کمی تھی۔ میزبان نے اپنے ہمسائے کا دروازہ کھٹکھٹایا اور ایک چارپائی مانگی۔ہمسایہ بولا کہ میں آپکی مدد ضرور کرتا لیکن ہمارے پاس صرف دو چارپائیاں ہیں۔ ایک پر میںا ور میرا بیٹا سوتے ہیں جبکہ دوسری پر میری بیوی اور میری بہو سوتی ہے ہمسایہ یہ سن کر بولا کہ بھائی ہمیں چارپائی دو یا نہ دو لیکن اپنے سونے کے طریقہ کار کو درست کر لو۔"
بد قسمتی سے ہماری حکومتوں کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں۔ ہم نے گزشتہ اڑسٹھ سالوں میں اپنی سمت درست کرنے کی بجائے دنیا بھر کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ہماری سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہمارے ملک کے اندر بیرون دنیا میں ذرا سا بھی کچھ ہو جائے ہمارے شہروں کی سڑکیں بند کر کے احتجاج شروع ہو جاتا ہے۔ معاملہ چاہے کسی بھی نوعیت کا ہو۔ ہم نقصان اپنی ہی املاک کو پہنچاتے ہیں۔ ہم اپنا گھر درست کرنے کے بجائے دوسروں کو مورد الزام ٹھہراتے رہتے ہیں۔کبھی امریکی اور یورپی سازش اور کبھی یہودی لابی یا ہندو لابی کے ذمے ہر چیز ڈال کر خود کو مبرا قرار دے دیتے ہیں۔یہ وطیرہ کسی بھی طور درست نہیں۔سب سے پہلے ہمیں اس ہمسائے کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے اپنے وطن میں رہنے کا طریق کار درست کرنا ہے۔اپنا گھر درست کئے بغیر ہم کبھی بھی دوسروں کی مداخلت یا سازشوں سے نہیں بچ سکتے۔اگر ہم اقوام عالم کی تاریخ کا جائزہ لیں تو بڑی بڑی سلطنتیں اور مضبوط ترین حکومتیں طرز حکومت میں خرابی کی وجہ سے صفحہ ہستی سے مٹ گئیں۔
پاکستانی عرصہ دراز سے بیڈ گورننس کا شکار رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب کسی قدر ہمارے حکمرانوں اور عوام میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ ہمیں اپنے طرز حکمرانی کو بہتر بنانا ہے۔ اسی طرح ہمارے اقتصادی حالت دیوالیہ کی حدود کو چھو رہی تھی شکر الحمد اللہ کے اب اس میں قدرے بہتری واقع ہونے لگی ہے۔ ہماری افواج کو بھی جمہوریت کے نام پر تحقیر کا نشانہ بنانے کی داخلی اور خارجی کوششیں کی گئیں لیکن یہ امر خوش آئند ہے کہ اب افواج پاکستان عوامی سطح پر ہر اعتبار سے قابل قدر اور قابل تحسین ہیں۔ یہ امر ڈھکا چھپا نہیں کہ اگر افواج پاکستان کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ رکھا گیا تو پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کو محفوظ بنانا ا ور ہماری خود مختاری اور آزادی کو قائم رکھنا کوئی مشکل کام نہیں۔ہم خوش نصیب ملک ہیں کہ ہماری فوج اپنا یہ قومی کردار بھر پور انداز میں ادا کر رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین بھی ہوش کے نا خن لیں۔ تاریخ نے ان کو بہت جھٹکے دئیے ہیں۔اگر سیاسی حکمران گڈ گورننس کو منزل مقصود بنا لیں اور ملکی ترقی کے منصوبوں خاص طور پر اقتصادی راہداری اور گوادر کی ترقی پر ترجیحاً توجہ دیں تو ہماری معیشت کا پہیہ تیزی سے رواں دواں ہو گا۔ حکمرانوں کو قوم کی تربیت اور اسے تعلیم اور صحت کی حقیقی سہولتیں فراہم کرنے کی جانب بھی توجہ دینی چاہئیے پاکستان میں الحمد اللہ قومی وسائل کی کمی نہیں صرف ہماری سمت اور نیتوں کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے مسائل کا حل پیچیدہ نہیں اصلاح احوال کیلئے ہمیں کسی سے مدد لینے کی ضرورت نہیں بس اپنی چارپائی کے نیچے چھڑی پھیرنی ہے۔