پاکستان کھٹکتا ہے… کیوں…؟

جب نفرتوں کے جھکڑ چلنے لگیں تو زمین کی جڑوں میں اترا ہوا ہر مضبوط پودا لو دینے لگتا ہے‘ انڈیا میں مسلم کمیونٹی کے خلاف شیوسینا ہوا چل رہی ہے۔ یہ ہوا ایک دن میں نہیں بنی۔ حیرت ہے کہ جب شیوسینا کو پاکستان پر غصہ آتا ہے تو وہ انڈین مسلمانوں کو اذیت دینے لگتی ہے‘ للکارنے لگتی ہے اور دھمکانے لگتی ہے حالانکہ انڈین مسلمان غیر مشروط طورپر اپنی دھرتی کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کوئی ادیب‘ شاعر‘ فنکار یا عام شہری ایسا نہیں ہے جس نے پاکستان کی یاترا کرتے سمے اپنے دیش یعنی انڈیا کو بُرا کہا ہو۔
انڈین فلم انڈسٹری کا جائزہ لیا جائے تو فلم میکرز سے لیکر کہانی نویسوں اور ایکٹروں تک مسلمان چھائے ہوئے ہیں۔ یہ مسلمان اپنی صلاحیت اور ٹیلنٹ کے بل بوتے پر آگے آئے ہیں۔ یہ تاریخ ساز لوگ ہیں۔ انہوں نے دنیا بھر میں انڈیا کا ڈنکا بجایا ہے۔ یہ انڈیا کے اندر زر مبادلہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ کونسا ملک ہے جس میں اردو بولنے والے نہیں بستے اور کونسی سرزمین ہے جہاں اردو فلم نہیں دیکھی جاتی۔ ان باتوں کی تفصیل میں جانا فضول ہے۔ دلیپ کمار پوری زندگی یوسف خان سے بچ کر رہا۔ شاہ رخ خان نے ہندو گوری سے شادی کر لی۔ عامر خان نے بھی وہی کیا۔ سلمان خان نے ایسا کھشٹ نہیں کیا مگر اسے ہٹ اینڈ رن میں کئی بار عدالتوں کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ سنجے دت مسلم ماں کا بیٹا ہے مگر نہ جانے کب تک پسِ زنداں اپنی ماں کو خراج پیش کرتا رہے گا۔
شیوسینا پہلے یہ بتائے دنیا کا وہ کونسا ملک ہے جہاں ہندو‘ سکھ‘ مسلمان اور عیسائی آباد نہیں ہیں۔ ہندو‘ سکھ اور مسلمان روزگار کیلئے ہر نئے یا پرانے ملک میں پہنچ جاتے ہیں۔ ان ملکوں میں محنت کرتے ہیں‘ روزگار کماتے ہیں‘ قانون کا احترام کرتے ہیں اور عزت کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کے جو بچے وہاں پیدا ہوتے ہیں‘ اپنے آپ ان ملکوں کے شہری بن جاتے ہیں۔ اگر ہر ترقی یافتہ یا ترقی پسند ملک‘ اپنی زمین سے ان کو نکل جانے کی دھمکیاں دیتا رہے تو یہ کیا کریں گے۔
عمر ساری ان فنکارں نے انڈیا میں گزار دی اور اب انہیں پاکستان چلے جانے کا حکم مل رہا ہے۔ ہر بار شیوسینا اور آر ایس ایس کی نگاہوں میں پاکستان ہی کیوں کھٹکتا ہے۔ علامہ اقبال کی ایک مشہور نظم کا مصرع ہے؎
میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
شیوسینا اور اس کی حمایتی جماعتوں کے دل میں پاکستان بھی کانٹے کی طرح کھٹکتا رہتا ہے کیونکہ پاکستان دنیا کے گلوب پر ایک حقیقت کی طرح براجمان ہے۔
لیکن یہ لوگ پاکستان ہی کیوں جائیں۔ انہوں نے دنیا میں بڑا نام کمایا ہے۔ ایک خلقت کو اپنا چاہنے والا بنایا ہے۔ ان کے ہاتھوں میں کبھی نہ مرنے والا فن ہے۔ یہ جس ملک میں بھی جائیں گے عزت کمائیں گے۔ انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔ یہ اپنی دنیا آپ پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ خدا کے چنیدہ بندے ہیں کہ جن کو اپنے بندوں کو خوش رکھنے کیلئے اس نے دنیا میں بھیجا ہے۔ یہ انڈیا سے نکل کر بھوکے نہیں مریں گے۔ اپنا کمال اور اپنا جمال ساتھ لے جائیں گے۔ مگر پاکستان میں ہی کیوں…؟ انتخابات کے دوران اگر مسلم کمیونٹی ان کی پارٹی کو ووٹ نہیں دیتی تو اسے بھی یہی کہہ کر دھمکایاجاتا ہے کہ جو ہمیں ووٹ نہیں دیتا‘ پاکستان چلا جائے۔
یہ بے چارے تو اس وقت پیدا ہی نہیں ہوئے تھے جب پاکستان بنا تھا۔ اگر کچھ ان میں سے پیدا ہو گئے تھے تو انہوں نے ابھی پائوں پائوں چلنا اور حرف حرف بولنا بھی نہیں سیکھا تھا۔ ان کے پرکھوں کی سزا انہیں کیوں دیتے ہو۔ ادھر بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کو پاگل پن کا دورہ پڑا ہوا ہے۔ متقی اور مدبر لوگوں کو چُن چُن کر پھانسی پر چڑھا رہی ہے۔ مگر شیخ حسینہ کو اپنا انجام معلوم نہیں؎
رہا سکندر یہاں نہ دارا نہ ہے فریدوں یہاں نہ رحم ہے
انڈیا ایک بڑی جمہوریت ہے۔ اس کے اندر بھی اس ناقابل برداشت ذہنیت اور بڑھتی ہوئی فرقہ پرستی کے خلاف آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ فنکاروں‘ ادیبوں اور شاعروں نے احتجاجاً اپنے ایوارڈ واپس کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ ساہتیہ اکیڈمی بھارت کی بائیس زبانوں کے رائٹرز کو ہرسال ایوارڈ دیتی ہے۔ سب سے پہلے ہندی کے رائٹر اُدے پرکاش نے اپنا ایوارڈ واپس کیا۔ اس کے بعد تقریباً چالیس ادیبوں نے اپنے ایوارڈ لوٹائے ہیں۔
گئو مانس کھانے کے شک میں جب دادری کے اخلاق احمد کو بے دردی سے قتل کردیاگیا تو ایوارڈ لوٹانے کے واقعات میں تیزی آگئی۔ جب ادیبوں‘ شاعروں‘ صحافیوں اور فنکاروں کی آواز نہیں سنی جائے گی تو پھر وہ اپنے ردعمل کا اظہار اسی طرح سے کریں گے۔
چالیس سے زیادہ مصنفین نے ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ واپس کئے ہیں۔ دیواکر بینرجی جیسے دس فلم کاروں نے بھی اپنے ایوارڈ واپس کر دیئے ہیں۔ پنجابی زبان کی مصنفہ دلیپ کور ٹوانا نے ’’پدم شری‘‘ جیسا ایوارڈ واپس کر دیا ہے۔
پٹیالہ شہر کی نامور جوڑی ڈاکٹر ملکیت سنگھ سینی اور ان کی سماج سیوکا بیوی ڈاکٹر کلونت کور نے سٹیٹ سے ملے ایوارڈ پنجاب سرکار کو واپس دیدیئے ہیں۔
13 تاریخ دانوں اور کچھ سائنس دانوں نے بھی نیشنل ایوارڈ واپس کر دیئے ہیں۔
جن بارہ فلم سازوں نے اپنے ایوارڈ لوٹائے ہیں‘ ان میں دیواکر بینرجی‘ ہریش کامدار‘ لیپکا سنگھ‘ نشمکا جین‘ آنند سیٹیورامن‘ کیرتی نکسوار‘ سریش کلکرنی اور ہری نائر ہیں۔
قومی سطح کے ایوارڈ جنہیں حاصل کرنے کیلئے بندہ ایک عمر جتن کرتا ہے‘ وہ اتنی آسانی سے واپس کرنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ تو ہر فلم کار اور فنکار کا اثاثہ ہوتا ہے‘ میراث ہوتی ہے مگر جب تک اندر گہری چوٹ نہ لگے اور اس چوٹ سے انسانیت بیدار نہ ہو‘ بندہ ایوارڈ کو واپس کرنے کا حوصلہ نہیں کر سکتا۔ اخبار کی خبر ہے کہ بعض سابق فوجیوں نے بھی اپنے مسائل کا عذر دیکر ایوارڈ واپس کرنے کا من بنا لیا ہے۔
جس گھن گرج کے ساتھ نریندر مودی آئے تھے‘ اسی شدومد کے ساتھ انڈیا کے اندر مسائل سر اٹھا رہے ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ عدم برداشت کا ہے۔ چھوت چھات تو انڈیا میں ہمیشہ سے تھی مگر جانوروں کو تحفظ دینے کی خاطر انسانوںکو قتل کرنے کی رسم اب شروع ہوئی ہے۔ بھارت اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طورپر پیش کرتا ہے۔
لیکن پاکستان کی طرف دیکھتے وقت اس جمہوریت کی آنکھ کا زاویہ بدل جاتا ہے۔ کیا شرم الشیخ میں یوسف رضا گیلانی نے بطور وزیراعظم جناب من موہن سنگھ کو بھارت کی طرف سے دہشت گردی کے ثبوت فراہم نہیں کئے تھے۔
آگ کی چنگاری صرف ایک کونے سے اٹھتی ہے‘ لیکن آناً فاناً گھر کا سارا سامان جل جاتا ہے۔کونسا ملک ہے کہ جس کے اندر خفیہ ظاہری دہشت گردی نہیں ہورہی یا دور پار بیٹھے ہوئے دہشت گردوں کو تیار نہیں کیا جا رہا۔
عجیب بات ہے‘ وہ کسی ملک کا لے پالک ہو‘ کسی بھی ملک کا باشندہ ہو‘ کوئی بھی اس کا مطالبہ ہو‘ اگر اس کا نام مسلمانوں جیسا ہے تو تمام مسلم امہ کو موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ جمیع مسلم کائنات کے نام لیا جاتا ہے۔ ایک رسم ہی بنا لی گئی ہے کہ جس کا نام مسلمانوں والا ہوگا‘ وہ سارے مسلمانوں کا ترجمان ہوگا۔
دو سال کے اندر ہماری قابل فخر جری فوج نے چُن چُن کر وہ کانٹے نکالے ہیں جو ہمارے دوست نما دشمنوں نے مسلمانوں کے نام رکھ کر بوئے تھے اور ابھی کانٹے نکل رہے ہیں۔ نکالے جائیں گے۔ انشاء اللہ‘ لیکن بات بات میں پاکستان کا طعنہ کیوں؟
ایسا خوف ہے پاکستان کا آپ کے اعصاب پر…؟ کس کس کو پاکستانی بنائیں گے؟…

ای پیپر دی نیشن