مولانا ظفر علی خان ہماری جدوجہد آزادی کی تاریخ کا ایک انمول باب ہیں۔ انہوںنے میدان ہائے سیاست‘ صحافت اور ادب میں وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جن کی بدولت ان کا نام تا قیامت قائم و دائم رہے گا۔ اُنہوں نے اپنی عملی زندگی کی ابتداء میں حق گوئی اور حریت پسندی کے جن اعلیٰ آدرشوں کو اپنایا‘ تادم آخر ان کا عَلم اٹھائے رکھا۔ ان آدرشوں کی علمبرداری کے دوران انہیں متعدد بار قید و بند کا سامنا کرنا پڑا مگر ان کے پائے استقامت میں ذرہ بھر لغزش نہ آئی۔ ان کا اخبار ’’زمیندار‘‘ برصغیر کے مسلمانوں اور مسلم لیگ کی پالیسیوں کا حامی اور ترجمان تھا جس نے تحریک پاکستان کے دوران انتہائی موثر کردار ادا کیا۔ اپنی بے باکی اور حق گوئی کے باعث اس اخبار کو کئی بار بندشوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم مولانا ظفر علی خان نے یہ تمام مالی نقصانات بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کئے۔ ان کی جرأت و استقامت نے انہیں قائداعظم محمد علی جناح کا معتمد ترین ساتھی بنا دیا تھا۔ تحریک پاکستان کے عروج میںاُن کی شعلہ بیانی بھی عروج پر تھی تاہم اِس دوران انہوں نے شائستگی کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑا اور اپنی تحریر و تقریر میں برصغیر کی دیگر غیر مسلم اقوام کو ہمیشہ برادرانِ وطن کہہ کر پکارا۔ انہوں نے آئین اور دستور کی حدود کے اندر رہتے ہوئے حصولِ آزادی کی جدوجہد کی۔ مسلمانانِ ہند کی آزادی کے حوالے سے مسلم لیگ کے موقف پر انہیں یقین کامل تھا جو سراسر حق و انصاف پر مبنی تھا۔ اس کے برعکس کانگریس کے نزدیک آزادی کا مفہوم یہ تھا کہ انگریزوں کے جانے کے بعد ہندو اکثریت کے بل بوتے برصغیر میں رام راج قائم ہوجائے جہاں دوسری اقوام ہندوئوں کی غلام بن کر زندگی گزاریں۔ یہ سراسر بے انصافی تھی لہٰذا مولانا ظفر علی خان نے وطن پرستی کے لبادے میں مسلمانوں پر ظلم و استحصال پر مبنی نظام مسلط کرنے کی کانگریسی کوششوں کی ڈٹ کر مخالفت کی اور روزنامہ ’’زمیندار‘‘ کے ذریعے ہندو اخبارات کے پاکستان مخالف پراپیگنڈے کا ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ اُنہوں نے مرکزی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے قائداعظم محمد علی جناح کا بے لوث ساتھ دے کر‘ مدیر ’’زمیندار‘‘ کے طور پر تحریک پاکستان کے اسباب و مقاصد کی وضاحت اور کانگریسی پراپیگنڈے کا مقابلہ کرکے اورعوامی جلسوں میں اثر انگیز تقاریرکے ذریعے ملتِ اسلامیہ کی سیاسی بیداری میں بنیادی کردار ادا کیا۔ آپ کی انہی صفات کی بناء پر ایک مرتبہ بابائے قوم نے فرمایا تھا کہ ’’مجھے پنجاب میں ظفر علی خان جیسے ایک دو بہادر آدمی دے دو تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پھر مسلمانوں کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔‘‘ 1945-46ء کے تاریخ ساز انتخابات میں اپنی ضعیف العمری کے باوجود مولانا ظفر علی خان نے مسلم لیگی امیدواروں کی انتخابی مہم کو تقویت پہنچانے کی خاطر ملک کے طول و عرض کے دورے کئے۔ برصغیر کے قریہ قریہ میں ان کی ولولہ انگیز تقاریر نے مسلمانوں کے قلوب کو گرما دیا‘ ان میں ایک نیا جوش و جذبہ بھر دیا۔ 75سال کی عمر میں بھی آزادی کے لئے ان کا جذبہ اور تڑپ قابل دید تھی تاہم آخر وہ ایک گوشت پوست کے انسان ہی تو تھے۔ مسلسل سفر کی مشقت نے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کرنا شروع کردیے اور آخر کار 1946ء کے آخر میں وہ ٹائیفائڈ میں مبتلا ہوگئے۔ اس سے افاقہ ہوا تو فالج نے آن گھیرا۔ زبان میں لکنت اور بدن میں رعشہ پیدا ہوگیا۔ حافظہ بھی بتدریج جواب دینے لگا۔ اس صورتحال نے ان کی سماجی زندگی کو بالکل محدود کردیا۔ اگر کبھی صحت اجازت دیتی تو کسی محفل میں شریک ہولیتے۔ مارچ 1948ء میں پنجاب یونیورسٹی نے ’’آل پاکستان اُردو کانفرنس‘‘ کا اہتمام کیا جس میں مولانا ظفر علی خان نے اپنا مقالہ بعنوان ’’عہد حاضر اور اُردو‘‘ پیش کیا۔ اس موقع پر مولوی عبدالحق‘ شیخ عبدالقادر اور سردار عبدالرب نشتر جیسی نابغۂ روزگار ہستیاں بھی جلوہ افروز تھیں۔ 26مارچ رات 8بجے مولانا ظفر علی خان نے دورانِ مقالہ اپنی طویل سیاسی و صحافتی زندگی کی روداد کچھ اس دلگداز انداز میں پیش کی:
’’ہمارا قافلہ منزل مقصود پر پہنچ چکا ہے۔ اس کے بعد تمنائے راہ پیمائی تو ہے لیکن قوتِ راہ پیمائی نہیں رہی۔ کام کرنے کو جی چاہتا ہے لیکن ہاتھ جواب دے چکے ہیں۔ دل میں جذبات تو ہیں لیکن ان کے لیے عمل و حقیقت کا جامہ نہیں ملتا۔ اب راستے میں بیٹھ کر چلنے والوں کی برق رفتاری کا تماشا دیکھنے کے قابل رہ گئے ہیں۔ تماشا بھی اُن لوگوں کا دیکھتے ہیں جو ہمیں عہدِ ماضی کی یادگار سمجھ کر تماشا سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو تماشائی۔ اس میں شک نہیں کہ بُوڑھے عصر حاضر کے معمار ہیں لیکن جس طرح عمارت مکمل ہوجانے کے بعد معمار کو نکال دیا جاتا ہے‘ اسی طرح اگر عصر حاضر پکارنے لگے کہ ’’اب تمہاری کوئی ضرورت نہیں‘‘ تو ہم کوئی جواب نہ دے سکیں گے۔ دُنیا چڑھتے ہوئے سورج کی پرستش کرتی ہے۔ ڈوبتے ہوئے آفتاب کو کون پوچھتا ہے اور ہم تو ڈوبتے ہوئے ستارے کی طرح دنیا پر نظر ڈال رہے ہیں۔ پھر سورج کے مقابلے میں ہمیں کب جگہ ملے گی۔ با ایں ہمہ‘ کبھی ہم بھی رزمِ گاہِ ہستی میں مصروف پیکار تھے۔ ہم نے بھی اس خاموش دنیا میں ہنگامے کی رُوح پُھونکی تھی۔ عہد حاضر کے نقش و نگار میں کچھ ہمارے قلم کا حصہ بھی ہے۔ اس گلستان کے چند پھولوں نے ہمارے خون سے بھی سرخی حاصل کی ہوگی۔ اس صحرا کی ہنگامہ آرائی میں ہمارا جنون بھی کار فرما رہا ہے۔ اس لیے اگر ہم کچھ کہیں تو عزیزان ملت! پُرانے زمانے کی راگنی نہ سمجھیں۔ ٹوٹے ہوئے ساز کا اُلجھا ہوا نغمہ خیال نہ کریں اور پھر یہ کہہ کر کانوں میں انگلیاں نہ ٹھونس لیں کہ…
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ ربا کہتے ہیں
تحریک پاکستان کے اس ناقابل فراموش کردار کی عظمت کا جتنا بھی تذکرہ کیا جائے‘ کم ہے۔ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے اغراض و مقاصد میں یہ بات شامل ہے کہ نہ صرف پاکستانی قوم کو مشاہیر تحریک پاکستان کی حیات و خدمات کی تواتر سے یاد دہانی کرائی جاتی رہے بلکہ نسل نو کو بھی ان کے مقام و مرتبے سے آگاہ کیا جائے۔ چنانچہ اس امر کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہر سال مولانا ظفر علی خان کی برسی پر بڑے باوقار انداز میں ان کی یاد منائی جاتی ہے۔ گزشتہ روز اُن کی 59ویں برسی کی مناسبت سے ’’یوم ظفر علی خانؒ‘‘ کے عنوان سے ایک خصوصی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں مقررین نے ان کی ملی‘ قومی‘ ادبی اور صحافتی خدمات پر روشنی ڈالی اور بابائے قوم کے اس رفیق خاص کو خراج عقیدت پیش کیا۔ تحریک پاکستان کے مخلص کارکن‘ سابق صدر مملکت اور نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم محمد رفیق تارڑ نے جو گزشتہ دنوں علالت کے باعث ہسپتال داخل تھے اورالحمدللہ اب صحت یابی کے بعد گھر پر آرام کررہے ہیں‘اپنے پیغام میں کہا کہ مولانا ظفر علی خان کی زندگی عہدِ حاضر کے اہل سیاست و صحافت کے لئے مینارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک کہنہ مشق خطیب‘ قادر الکلام شاعر‘ منفرد نثر نگار‘ نڈر سیاستدان اور بے باک صحافی کی حیثیت سے اُنہوں نے مسلمانانِ ہند کی سیاسی بیداری کے ضمن میںجو گراں قدر خدمات انجام دی ہیں‘ وہ ہماری قومی تاریخ کا ایک روشن باب ہیں۔ نشست سے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کے وائس چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد‘ مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے سیکرٹری راجہ اسد علی خان اور پروفیسر ڈاکٹر پروین خان نے بھی خطاب کیا۔نشست کی نظامت کے فرائض ٹرسٹ کے سیکرٹری محترم شاہد رشید نے بڑی عمدگی سے نبھائے۔