جنرل قمرجاوید باجوہ کی تقرری کے ساتھ ہی مجھے دنیا بھر سے دوست و احباب اور ساتھیوں کے پیغامات اور ٹیلی فون کالیں آنا شروع ہو گئیںکہ پہلی دفعہ پاکستان کا آرمی چیف ایک جاٹ خانوادے سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے تمام دوستوں کی مبارکبادیں قبول کرتے ہوئے انہیں یہ بھی یاد دلایا کہ (نہ صرف جنرل قمر جاوید باجوہ جاٹ ہیں بلکہ ان کے حریف موجودہ بھارتی آرمی چیف بھی جاٹ ہیں، اب یہ دو جاٹوں کے مابین عزت اور ہمت کا معرکہ ہے جو یقینا کامیابی ہمارے جاٹ کے حصے میں ہی آئیگی) سب کو یہ جواب دے رہا ہوں کہ خدا کرے نیا آرمی چیف ذات پاک، برادری ازم اور سیاسی مصلحتوں سے مبرّا اور پاک ہو۔خدا خدا کرکے وہ شاہکار سامنے آگیا جس کا قوم کو بے تابی سے انتظار تھا حالانکہ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے مگر اسے حکومت نے ایک معمہ بنا دیا اور پوری قوم ایک گومگو کی کیفیت میں چلی گئی۔ آرمی چیف کس کو ہونا چاہیے تھا؟ نئے آرمی چیف کے نام پر وزیراعظم اور جنرل راحیل شریف متفق تھے یا نہیں تھے، اس بحث کی اب ضرورت نہیں اب حقیقت یہ ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ جنرل راحیل شریف کے جاں نشیں ہیں اور وہ بھی جنرل راحیل شریف کی طرح سائونڈ پروفیشنل ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے صوابدیدی اختیار ات کے تحت انکی تعیناتی کی وہ سنیارٹی میں چوتھے نمبر پر تھے جبکہ سب سے سینئر جرنیل، جنرل زبیر حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنایا گیا ہے دونوں جرنیلوں سے قوم کو بڑی توقعات وابستہ ہیں۔ جنرل زبیر حیات نیوکلیئر پروگرام کی سیکورٹی کے ذمہ دار بھی ہوں گے وہ یقیناً پاکستان کے دنیا بھر میں سب سے زیادہ محفوظ نیوکلیئر اثاثوں کو مزید محفوظ بنانے کی کوشش کرینگے۔ جنرل باجوہ کیلئے جنرل راحیل شریف نے بڑے چیلنجز چھوڑے ہیں، ان میں ’’ ضربِ عضب‘‘ اور کراچی آپریشن سرفہرست ہیں۔ بھارت کو بھی منہ توڑ جواب دینا ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہے وہ جنرل راحیل شریف کی طرح جانفشانی سے کام کرینگے تو انکی طرح عزت پائیں گے۔ قوم آج جنرل راحیل شریف کو اپنا ہیرو سمجھتی ہے میں ان کو قوم کا اسی طرح محسن گردانتا ہوں جس طرح پہلے آرمی چیف جنرل میسوری تھے۔ انکے بارے میں بی بی سی کی رپورٹ پڑھ کر میں حیران ضرور ہوا۔جنرل میسروی کمانڈر اِن چیف کے عہدے پر 15 اگست 1947 سے 10 فروری 1948 تک فائز رہے وہ برطانوی شہری تھے اس لیے سبکدوشی کے فوراً بعد برطانیہ واپس چلے گئے۔ آج فوجی کمانڈ کی تبدیلی ہو رہی ہے۔ آج پنڈی میں ایک دھوم دھام نظر آرہی ہے۔ شادامانی کی کیفیت ہے۔ باجے بج رہے ہیں۔ اِدھر باجے بج رہے ہیں ادھر سکھوں نے مودی حکومت کا بینڈ بجا دیا ہے۔ بھارتی ریاست پنجاب کے ضلع پٹیالہ میں ہائی سکیورٹی نبھا جیل پر 20 افراد نے حملہ کرکے خالصتان کی آزادی کیلئے سرگرم تنظیم خالصتان لبریشن فورس کے سربراہ ہرمیندر سنگھ منٹو سمیت 6 قیدیوں کو چھڑا لیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ گزشتہ صبح ساڑھے 8 بجے پولیس کی وردیاں پہنے 20 افراد نے اندھا دھند فائرنگ کرکے پٹیالہ کی سخت سکیورٹی والی نبھا جیل کے 3 گارڈز کو زخمی کردیا اور جیل میں داخل ہوگئے۔ انہوں نے وہاں قید خالصتان لبریشن فورس کے سربراہ ہرمیندر سنگھ منٹو ان کے قریبی ساتھی گورپریت سنگھ اور دیگر 4 قیدیوں امن دیپ سنگھ دھوتیان، وکی گوندر موچمر سنگھ اور نیتو دیول کو چھڑا لیا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ انکے فرار ہوتے ہی پنجاب سمیت بھارت کی تمام ریاستوں میں ہائی الرٹ کر دیا گیا بعد ازاں ہرمیندر سنگھ منٹو کو دہلی سے گرفتار کر لیا گیا جبکہ واقعہ کی تحقیقات کیلئے ڈائریکٹر جنرل پولیس کی سربراہی میں ٹاسک فورس قائم کردی ہے۔ جیلوں کی سکیورٹی میں ناکامی پر بوکھلائے نائب وزیراعلیٰ پنجاب سکھبیر سنگھ بادل نے ہنگامی پریس کانفرنس کے دوران الزام لگایا کہ نبھا جیل توڑنے کے واقعہ میں پاکستان ملوث ہو سکتا ہے کیونکہ بھارتی فوج کی سرجیکل سٹرائیکس کا جواب دینے کیلئے ہمسایہ ملک پنجاب میں دہشتگردی کو پھر پروان چڑھانا چاہتا ہے۔ بھارت نے بلا سوچے سمجھے اور بغیر تحقیق کے پاکستان پر الزام لگایا ہے۔ اس جواب وہی ہونا چاہیے جو بے جا طور پر بھارتی قومی سلامتی کے مشیر اجیت ددول نے دیا تھا کہ کشمیر کا بدلہ بلوچستان میں لیں گے۔ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر کو بھی کہنا چاہیے بلوچستان میں ایسا کرو گے تو جواب یہی ملے گا۔ افسوس کہ جنرل ضیاء کی عروج پر پہنچائی خالصتان تحریک میری پارٹی کی حکومت نے اعتزاز حسن کے ذریعے سکھوں کی لسٹیں راجیو گاندھی کو تھما کردفن کر دی، جس میں آج جان پڑ رہی ہے۔ آج پاکستان میں میاں نوازشریف کی حکومت ہے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کا لگایا ہوا پودا جو تناور بن چکا ہے۔ ان کو جنرل ضیاء الحق نے اپنی عمر بھی لگ جانے کی دعا دی تھی جو شایدقبول بھی ہو گئی۔ انکی موت کے بعد میاں نوازشریف کئی سال تک کہتے رہے کہ وہ ضیاء الحق کا مشن پورا کرینگے۔ خالصتان کا قیام جنرل ضیاء الحق کا مشن تھا جو اب پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ حالات بھی سازگار ہیں اور ایک جاٹ آرمی چیف بھی بن چکا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل ہونے تک بھارت کے سینے پر خالصتان کا مونگ دلنے کی کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ اس حکومت سے ایسی امید تو نہیں ہے مگر پھر بھی کہنا پڑتا ہے کہ شاید یہ ایسا کر گزرے۔دنیا بھر کے دو سو سے زیادہ ممالک میں وہی ادارے ہیں جو پاکستان میں پائے جاتے ہیں ۔اسی طرح فوج بھی ان اداروں میں ایک ادارہ ہے لیکن ہمارے ہاں ہمارے سیاستدانوں کی ریشہ دوانیاں اور کرپشن کیوں کہ فوج کو سیاست میں مداخلت پر مجبور کرتی ہیں اور اس وجہ سے ماضی میں فوج نے کئی دفعہ سیاست میں انٹری ڈالی مگر گذشتہ دو چیفس ایسی کسی ترغیب اور طالع آزمائی سے بصد ضرورت بھی منع رہے، اس لیے توقع کی جا رہی ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کی انہی نالائقیوں کی وجہ سے ہمارے نئی آرمی چیف کو بھی سیاست میں نہ چاہتے ہوئے بھی مداخلت پہ مجبور کیا جائیگا اور سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جیسے ہی ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا اور نئے چیف کی تقرری ہوئی، نئی خواہشیں، نئی امیدیں، نئی امنگیں بھی شروع ہو گئیں یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ امیدیں بَر آتی ہیں یا ٹرک کی پچھلی بتیوں کی طرح ہم ان کے تعاقب میں لگے رہیں گے۔