بھارت کی پاکستان کے خلاف غیر اعلانیہ جنگ

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بیاس ستلج راوی کے پانی پر ہمارا حق ہے اور یہ پانی پاکستان جانے کی اجازت نہیں دینگے۔ دہلی کی سابقہ حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے پانی پاکستان جاتا رہا اور کاشتکار پانی کے لئے روتے رہے۔ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان موجود ہے۔ جس کے مطابق ستلج بیاس ، راوی دریائوں کا پانی بھارت سندھ ، چناب اور جہلم کے دریائوں کے پانی پر پاکستان کا حق ہے لیکن بھارتی وزیراعظم مقبوضہ کشمیر میں تحریک آزادی کی نئی لہر سے اتنے پریشان ہیں کہ انہیں سندھ طاس معاہدہ پڑھنے اور دیکھنے کا موقع نہیں ملا بلکہ بھارت الٹا پاکستان حصے کے دریائوں پر غیر قانونی طور پر 60کے قریب ڈیم بنا چکا ہے۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کو پانی کے معاملے پر بلا جواز دھمکیاں اور اس رویے کو عالمی عدالت اقوام متحدہ اور ورلڈ بنک میں اٹھانا چاہیے ۔ اور بتانا چاہیے بھارت سے جنگ ہو گی تو مسئلہ کشمیر کے علاوہ پانی کا معاملہ اہم ہے۔ معاہدہ کے مطابق بھارت ہمارے حصے کے بہتے ہوئے پانی کو کم سے کم استعمال کرے گا۔ لیکن بھارت نے بے شرمی سے ڈیم تعمیر کرلیئے۔ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ ہم آپس کی بے اتفاقی ، نالائقی اور بیرونی طاقتوں کے اشارے پر کالا باغ ڈیم تعمیر نہیں کر رہے۔ حالانکہ ہمارا پانی سمندر میں ضائع ہو رہا ہے اور ہر سال سیلاب سے ہماری قیمتی جانوں اور املاک کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔ یہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ہم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں اپنی مرضی کی ترمیم یا مقاصد کے لئے طویل اجلاس کر لیتے ہیں لیکن قومی معاملات پر ہم خاموش ہیں۔ گزشتہ تین ماہ کے دوران ورکنگ بائونڈری اور کنٹرول لائن پر بھارت مسلسل گولہ باری کر رہا ہے جس میں فوجی جوانوں کے ساتھ معصوم شہری عورتیں اور بچے بھی جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ سینکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ مریضوں کو لیجانے والی ایمبولینس کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ پاکستان نے اس صورتحال کے پیش نظر بھارت کی غیر اعلانیہ جنگی صورتحال کو سکیورٹی کونسل کے مستقل ممبران کو دفتر خارجہ کے ترجمان کے ذریعے ساری صورتحال سے آگاہ کیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپنے ظالمانہ کارروائیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بلا اشتعال فائرنگ جاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ توپ خانے سے بھی گولہ باری کر رہا ہے جس سے دونوں ملکوں کی افواج اور عوام کے تنائو میں اضافہ ہو گیا ہے۔ یہ سلسلہ روایتی جنگ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ جس سے دونوں ملکوں کے علاوہ پورے خطے کے امن کو خطرہ لاحق ہے۔ بھارت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حالات کو خراب کر رہا ہے۔ پچھلے ہفتے بھارت کی آبدوزوں نے بھی پاکستان کی سمندری حدود میں داخل ہو کر حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس سے پاک بحریہ نے پوری کارروائی کر کے پاکستان کی حدود سے مار بھگایا۔ دفاعی ماہرین یہ کہتے ہیں کہ یہ سہواً نہیں ارادتاً کارروائی تھی۔ جس کا مقصد اور ٹارگٹ پاک چین گوادر پورٹ تھا۔ جس سے کسی بڑے نقصان کا خدشہ تھا۔ لائن آف کنٹرول پر پاکستانی حدود کے اندر بھارتی ڈرون مار گرایا گیا۔ دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بارڈر پر پاکستانی چوکیوں اور دیگر معاملات کی جاسوسی کے لئے بھیجا گیا تھا۔ مسلح افواج پاکستان اپنی پیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے بھارت اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو رہا۔ پاکستان ہر قسم کی جاریت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔
آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے خوب جواب دیا کہ اگر پاکستان نے سرجیکل سٹرائیک کیا تو بھارت اپنے نصاب میں پاک فوج کے قصے پڑھائے گا۔ پاکستان جنگ کرنا نہیں چاہتا لیکن وہ کشمیریوں کی اخلاقی اور سیاسی حمایت جاری رکھے گا۔ کیونکہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ بھارت نے جبراً قبضہ کیا ہوا ہے۔ بھارت کی پاکستان کو تنہا کرنے اور دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش بہت مہنگی پڑے گی۔ اگر پاکستان کے اپنے حصے کا پانی نہ حاصل کر سکا تو پھر ہر حالت میں بھارت سے جنگ ہو گی۔ کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان بنیادی تنازعہ ہے۔ اس کو اقوام متحدہ بھارت اور پوری دنیا میں تسلیم کیا ہوا ہے۔ پچھلے تین ماہ کے دوران 8 لاکھ مسلح افواج ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ کرفیو اور ہڑتال جاری ہے۔ کشمیری قیادت پابند سلاسل ہے۔ ادویات ، روزانہ استعمال کی اشیاء نایاب ہیں۔ ماروائے عدالت قتل کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت ایک طرف اپنے ملک کو دیگر ہمسایہ ممالک کو غربت مٹانے کے مشورے دیتا ہے اور دوسری طرف جنگ کا ماحول تیار کر رہا ہے۔ کشمیر میں جاری تحریک آزادی جو کہ اپنے انتہاء کی طرف بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف خالصتاً تحریک بھی جاری ہے۔ حیران کن بات ہے کہ اقوام متحدہ، امریکہ اور دیگر بڑے ممالک اس جانب توجہ نہیں دے رہے ۔بلکہ پاکستان اور بھارت کو باہمی مذاکرات سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ حالانکہ ان کو مداخلت کر کے ثالثی کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پاکستان تو بھارت سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے لیکن بھارت خود ہی مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں امریکہ اور اسرائیل کی بھارت کو پشت پناہی حاصل ہے ۔ چند دن قبل بھارتی سیکرٹری خارجہ نے بھی Sea Pak منصوبہ سمیت پاک چین تعلقات کو بحیثیت مجموعی بھارتی سلامتی کے لئے بحیثیت تشویش قرار دیا ہے۔ حالانکہ پاکستان بار بار واضح کر چکا ہے کہ یہ روابط بھارت سمیت کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں۔ نئے منتخب امریکی صدر ٹرمپ نے اپنی کامیابی کے فوراً بعد بھارت کو بڑا ملک قرار دیا ہے۔ اور پاکستان کے خلاف اچھے رویے کا مظاہرہ نہیں کیا اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے دلوں میں نئے امریکی صدر کے خلاف نفرت کا ماحول بن رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں پاکستان کے سابقہ آرمی چیف راحیل شریف کا ریٹائرمنٹ ہونا اور نئے آرمی چیف کا انتخاب میاں نوازشریف کا بہترین انتخاب ہے۔ جس کی وجہ سے انشاء اللہ ملکی حالات بہتری کی طرف جائیں گے۔ حکومت اپنی مدت پوری کرے گی۔ اور ملک سے دہشت گردی اور انتشار کا خاتمہ ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...