پالیسیوں پر شخصیات کس طرح اثرانداز ہوتی ہیں اور حالات و واقعات میں امکانات اور خدشات کا جوار بھاٹا پیدا کرتی ہیں۔ اس کا اندازہ بہت جلد 20 جنوری 2016ء سے ہونا شروع ہو جائیگا۔ اگرچہ 8 نومبر 2016ء کو ہونیوالے الیکشن میں منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اگلے ہی دن وائٹ ہائوس کا مکین نہیں بنا دیا گیا اور نہ ہی صدارت کی باگ ڈور تھما دی گئی بلکہ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو 10 نومبر کے باضابطہ اعلان کے بعد 20 جنوری 2016ء تک صدارتی آداب اور طریقۂ کار سکھایا جائیگا اور سوا دو ماہ کی مدت میں اُنکی ٹریننگ کی جائیگی۔ انہیں تمام پالیسیوں اور صدارتی اسرار و رموز کے گُر سکھائے جائینگے۔ پھر صدارت کی چابی تھمائی جائے گی۔ جیسا کہ یو ایس سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے بیان جاری کیا گیا ہے کہ امریکی پالیسیاں بدستور وہی رہیں گی لیکن آثار بتا رہے ہیں کہ اِس مرتبہ امریکی پالیسیوں میں بھونچال آئیگا۔ امریکی صدارتی انتخابات کے بعد سے سچ پوچھئے تو دنیا ہل گئی ہے۔ پہلی بار امریکی الیکشن نے سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ امکانات اور خدشات کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا ہے بالخصوص امریکہ اور اُس سے متعلق ممالک میں ابہام، شکوک اور اوہام پیدا ہو رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کے باعث 50 سے زائد ممالک تحفظات کی زد میں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے اور اختیارات حاصل کرنے کے بعد خود امریکہ اور اس سے جڑے دوست یا ناپسندیدہ ممالک میں منفی اثرات کی لہریں اٹھتی محسوس ہو رہی ہیں۔ اِس حوالے سے غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نے ایک قومی سیمینار کے روح رواں سید عامر محمود اور نورالہدیٰ شاہ تھے۔ اہم دانشور، صحافی، سیاستدان مدعو کئے گئے تھے۔ جن میں تحریک انصاف کے راہنما اعجاز چوہدری، پیپلزپارٹی کے قیوم نظامی، رئوف طاہر، نوید چوہدری، اکمل سومرو، شوکت حسین، راقم الحروف شامل تھے۔ اس سیمینار میں دس بنیادی نکات شامل کئے گئے تھے جن پر سیمینار کا دارومدار تھا۔ مثلاً ڈونلڈ ٹرمپ کے ناپسندیدہ گراف کے باوجود کامیابی کی وجوہ، امریکی صدارتی انتخابات میں بازی کیسے اور کیوں پلٹی؟ ہلیری کلنٹن کے ہارنے کے اسباب؟ امریکی صدارتی انتخابات کا طریقہ کار کیا ہے؟ ٹرمپ کے جیتنے کے بعد پہلی مرتبہ امریکہ میں مظاہرے کیوں شروع ہو گئے؟ کیا امریکہ میں بھی دھاندلی ہوئی؟ کن وجوہات کی بنیاد پر امریکی عوام ٹرمپ کو تیار کرنے کے لئے تیار نہیں ہو رہی؟ ٹرمپ کی سخت گیر پالیسیوں کے مستقبل کیلئے امریکہ پر کیا اثرات مرتسم ہونگے۔ تارکین وطن کے ساتھ ٹرمپ کا آئندہ کیا لائحہ عمل ہو گا؟ کیا وہ مسلمانوں اور پاکستانیوں کیساتھ سخت اور متعصبانہ رویہ رکھے گا؟ شرکائے مذاکرہ کی متفقہ رائے یہی تھی کہ ٹرمپ سے خیرسگالی کا رویہ رکھنے کی امید نہیں کی جانی چاہیے کیونکہ وہ شخصیت کے اعتبار سے ایک ناقابل اعتبار آدمی ہے۔ امریکی صدارتی انتخابات میں چار عناصر ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی وجہ بنے۔ ہلیری کلنٹن کا عورت ہونا نیز ڈیمو کریٹک کا روایتی رویہ شکست کا سبب بنا۔ ٹرمپ بزنس آئیکون ہے۔ 4 ارب ڈالر کے اثاثے رکھنے والا بزنس کے سب گُر جانتا تھا اس لئے سیاسی پتے بھی خوب کھیلا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے ٹرمپ کارڈ استعمال کر کے نتائج بدل ڈالے۔ امریکہ ہمیشہ دوسروں کا امتحان لیتا رہا ہے لیکن ٹرمپ کا انتخاب کر کے امریکہ نے خود کو ایک مشکل امتحان میں ڈال دیا ہے۔ امریکہ کے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں اور ٹرمپ دنیا میں تیسری جنگ عظیم کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں۔ میرا مؤقف بھی یہی تھا کہ ماضی کا نائن الیون اور حال کا الیون نائن امریکہ کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ تو چار سالہ صدارتی مدت کے بعد نو دو گیارہ ہو جائیگا لیکن ٹرمپ کی شخصیت، تنگ نظری، کدورت، بُغض، عناد اور شرپسندی سے بعید نہیں کہ دنیا تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر کھڑی ہو۔ ایسی صورت میں انسانی، سیاسی، اخلاقی، اقداری، معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی مسائل دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔ ہلیری کلنٹن کے صدر بننے سے بھی اگرچہ پاکستان کیلئے کوئی آئیڈیل سچوایشن جنم نہ لیتی لیکن ہلیری کلنٹن کا رویہ انتقامی، متشددانہ اور متعصبانہ ہرگز نہ ہوتا۔ ہلیری کلنٹن پاکستان اور انڈیا کے ساتھ مساویانہ رویئے کی حامل ہوتیں لیکن ٹرمپ کا جھکائو عبارت کی طرف ہے اور نریندر مودی کے ساتھ دوستانہ انداز ہے۔ اب بھارت امریکہ کیلئے لاڈلا بچہ ہو گا اور پاکستان کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کا رویہ ایک سخت گیر، ظالم، کینہ پرور، سوتیلے باپ والا ہو گا۔ اب پاکستان کو ہر قدم سنبھل کر اٹھانا ہو گا۔ امریکہ کا انسانیت کا چیمپئن ہونے کا دعویٰ نائن الیون کے وقت سامنے آیا تھا۔ ہیومن رائٹس کے بعد صنفی امتیاز کے حوالے سے بھی امریکہ کے سارے دعوے دم توڑ گئے۔ ہلیری کلنٹن جیسی مضبوط، اعلیٰ تعلیم یافتہ، ذہین و فطین، عالی دماغ، محب وطن، پرجوش، سرگرم، تجربہ کار اور ولولہ انگیز خاتون جو آئین اور قانون کے تمام رموز سے واقف ہیں، انہیں منتخب نہ کر کے ایک سخت گیر، طنز آمیز، بدزبان اور بدلحاظ آدمی کو منتخب کر کے امریکہ نے ساری دنیا کو اپنا باطن دکھا دیا کہ وہ کسی عورت کو اپنا صدر بنانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک امریکی شہری ہیں اگرچہ اُنکے والد اور والدہ دوسرے ممالک سے تعلق رکھتے تھے لیکن ٹرمپ کو اپنی امریکی شہریت پر خاص غرور ہے۔ شاید اسی لئے اقلیتوں یا غیرامریکیوں کیلئے ٹرمپ میں تحقیر کے جذبات موجود ہیں جن کا اظہار اُس نے مسلسل اپنی انتخابی مہم میں کیا۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ٹرمپ کی شخصیت متنازعہ اور ناپسندیدہ ہے۔ فطرت تعلیم اور ماحول سے بھی نہیں بدلتی اور اپنا اثر دکھاتی ہے۔ آخر میں سید عامر محمود اور نورالہدیٰ نے شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔