محقق اسلام شیخ الحدیث الحاج علامہ محمد علی نقشبندی اہلسنت کے ایک ممتاز عالم دین تھے۔ آپ ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ والدین نہایت نیک سیرت‘ عبادت گزار تھے۔ سب سے پہلے قرآن پاک حفظ کیا۔ ابتدائی تعلیم کے بعد اپنے دور کے جید علمائے کرام سے علم حاصل کیا۔ آپ کے اساتذہ میں شیخ الحدیث علامہ پیر سید جلال الدین شاہ‘ محدث اعظم حضرت مولانا سردار احمد‘ شیخ الحدیث حضرت مولانا غلام رسول رضوی اور دیگر اہل علم شامل تھے۔ ابتدا میں آپ نارروال کی جامع مسجد شاہ جماعت میں خطیب مقرر ہوئے۔ آپ کے وعظ کا انداز اتنا دلپذیر اور آواز میں اتنی مٹھاس تھی کہ جمعہ کے روز آپ کا خطاب سننے کیلئے لوگ وقت سے پہلے مسجد میں جمع ہو جاتے تھے۔ سارا بازار بند ہو جاتا۔ اسی دوران 1965ء کی جنگ کا موقع آگیا۔ جنگ کے دوران ایک فوجی افسر غلام محمد آپ کے پاس آیا اور درخواست کی کہ آپ اس کے ساتھ اگلے مورچوں پر چلیں اور فوجی جوانوں اور افسروں کو خطاب کریں۔ چنانچہ علامہ محمد علی نقشبندی عین حالت جنگ میں اس فوجی افسر کے ساتھ اگلے مورچوں پر گئے اور جہاد اور دفاع وطن کے موضوع پر ایمان تازہ کرنے والی گفتگو کرکے دشمن کے سامنے ڈٹے ہوئے جوانوں کے حوصلوں کو مزید بلند کر دیا۔ نارووال کے بعد علامہ محمد علی نقشبندی لاہور آگئے۔ شروع میں محلہ پیر شیرازی میں طلباء کو پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا مگر جلدہی وہ جگہ کم پڑ گئی تو آپ 1967-68ء میں بلال گنج منتقل ہو گئے اور جامع رسولیہ شیرازیہ کی بنیاد رکھی۔ طلباء سے پیار اور پڑھانے کے منفرد انداز کی وجہ سے چند ایک برسوں میں طلباء کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ گئی۔ آپ کی شہرت سن کر دور دور سے علم کے پیاسے جامعہ رسولیہ شیرازیہ لاہور کا رخ کرنے لگے۔ اہل علاقہ کے تعاون سے مسجد اور مدرسہ میں بتدریج توسیع ہوتی گئی اور گزشتہ نصف صدی میں جامعہ رسولیہ شیرازیہ سے سینکڑوں عالم تیار ہوکر نہ صرف ملک کے اندر بلکہ بیرون ملک بھی دین اسلام کی تبلیغ میں مصروف ہیں جبکہ آپ کے بڑے صاحبزادے علامہ حافظ قاری محمد طیب نقشبندی بھی مانچسٹر انگلینڈ میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور جامعہ رسولیہ اسلامک سنٹر مانچسٹر کے ناظم ہیں۔ علامہ محمد علی نقشبندی کی وفات کے بعد گزشتہ بیس برس سے آپ کے دوسرے صاحبزادے علامہ رضائے مصطفی نقشبندی اپنے والد گرامی کے مشن کو آگے بڑھاتے ہوئے جامعہ رسولیہ شیرازیہ کا انتظام و انصرام احسن طریقے سے چلا رہے ہیں۔ علامہ محمد علی نقشبندی بلند پایہ عالم دین ہونے کیساتھ ساتھ ایک روحانی شخصیت بھی تھے۔ آپ ہر سال ماہ رمضان المبارک میں مدینہ منورہ میں مسجد نبوی میں اعتکاف بیٹھتے تھے اور قطب مدینہ حضرت مولانا ضیاء الدین مدنی نے اپنی دستار مبارک اپنے سر سے اتار کر علامہ محمد علی کے سر پر رکھ دی اور سلسلہ قادریہ میں خلافت کی اجازت عطا کرکے دعائیں دیں۔ (قاضی مصطفی کامل)