آج پاکستان آرمی کا سٹیڈیم نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خوش آمدید کہہ رہا ہے۔ ایک جنرل سے دوسرے جنرل کو کمان دی جارہی ہے‘ پرامن ٹرانسفرآف پاور ہورہی ہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد سے لیکر اب تک چھ کمانڈر ان چیف اور نو آرمی چیف رہ چکے ہیں جن میں 15اگست1947ء سے سرفرینک میسروی،11 فروری 1948ء سے ڈوگلس گریسی، 16 جنوری 1951ء سے فیلڈ مارشل ایوب خان، 27اکتوبر 1958ء سے جنرل موسیٰ خان، 18جون 1966ء یحییٰ خان اور 20دسمبر 1971ء سے گل حسن خان۔ اس عہدے کو کمانڈر ان چیف سے چیف آف آرمی سٹاف (COAS) میں تبدیل کردیا گیا تو پہلے چیف 3 مارچ 1972ء کو جنرل ٹکاخان جبکہ اسکے بعد یکم مارچ1976ء کو جنرل ضیاء الحق، 17 اگست1988ء کو مرزا اسلم بیگ، 16 اگست 1991ء کو آصف نواز، 6اکتوبر 1998ء کو پرویزمشرف، 29نومبر 2007ء اشفاق پرویزکیانی اور29 نومبر 2013ء کو راحیل شریف بنائے گئے۔ نئے آرمی چیف سولہویں سربراہ ہونگے۔جنرل پرویزمشرف نے12 اکتوبر1999ء کو سول حکومت کو نکال کر سول اقتدار بھی سنبھال لیا تھا جبکہ اس سے قبل جنرل ایوب، جنرل یحیٰی خان اور جنرل ضیاء الحق سول حکومتوں کو فارغ کرکے کئی کئی سال اقتدار پر قابض رہے۔ جنرل مشرف کے بعد جنرل کیانی آرمی چیف بنے تومعاملات حکومت سکون سے چلتے رہے اورکبھی بھی آرمی ٹیک اوورکا مسئلہ پیدا نہ ہوا اور پیپلزپارٹی کی حکومت نے انہیں تین سال کی ایکٹینشن دی جبکہ جنرل راحیل شریف کے دور میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنا کے دوران مارشل لاء لگنے کی افواہیں زوروں پر تھیں۔ عمران خان تو انگلی کھڑے ہونے کا انتظارکرتے رہے۔ جنرل راحیل شریف کا تیسرا سال تو اسی میں گزر گیا کہ وہ آج سول حکومت کی چھٹی کراتے ہیں یا کل۔ پاک فوج کی اقتدار سنبھالنے کی سوچ تھی یا نہیں‘ لیکن ایک بات ضرورت سچ ہے کہ سول حکومت کی رات کی نیندیں حرام تھیںکہ کب وہ گھر یا جیل جائینگے۔ جنرل راحیل شریف نے چھ ماہ قبل اعلان کیاکہ وہ ملازمت میں توسیع نہیں لینگے تو پھر بھی یار لوگوںکو یقین نہیں آیا اور خوف قائم رہا جب تک کہGHQ نے الوداعی دوروںکے پروگرام کا اعلان نہیں کیا۔21 نومبرکا اعلان کیا تھاحکومتی لوگوں کے چہرے کھل اٹھے اور فوج کو لانے والے مرجھا گئے۔ انکی حکومت گرانے کی سازشیں اور کوششیں ناکام ہوگئیں۔ ویسے تو ایسا کرنے اور چاہنے والے یہ دعویٰ توکبھی نہیں کرتے تھے‘ لیکن حکومت ہی الزام لگاتی تھی۔
ایم کیو ایم کی ملک دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی‘ لیکن سیاسی مصلحتوں کی خاطر سابق حکومتوں نے کوئی کارروائی نہ کی بلکہ اس حد تک چلتے رہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومت میں ایم کیو ایم شریک رہی۔ جنرل راحیل شریف اور جنرل بلال اکبر کی قیادت میں رینجرز نے نائن زیرو پر کارروائی کرکے تاریخ لکھ دی۔ ایم کیو ایم کے دہشت گردوںکو گرفتار کیا، قاتلوںکو بے نقاب کیا۔ بھارت کیساتھ گٹھ جوڑ اور دہشت گردی کی تربیت کا سراغ لگایا۔ اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ ایم کیو ایم کے محب وطن لوگوں نے الطاف حسین سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ ضرب عضب اور فوجی عدالتوں کے قیام کی سیاستدانوں نے منظوری دی جس کی بنیادی وجہ جنرل راحیل شریف کی قیادت تھی۔ جنہوں نے بڑی بہادری سے دہشتگردوں کے خلاف کارروائیاںکیں۔ دہشت گردی کے واقعات کوئٹہ میں ہوئے یا پشاور میں یا مردان میں۔ جنرل راحیل شریف سب سے پہلے موقع پر پہنچتے تھے۔کوئی عید ایسی نہیں گزری جو انہوں نے اگلے مورچوں پر جاکر فوجیوںکے ساتھ نہ گزاری ہو۔ دنیا بھر میںانکی لیڈرشپ کو تسلیم کیا گیا اور امریکہ سمیت دنیا کے بڑے بڑے ملکوں نے نہ صرف جنرل راحیل شریف کو اپنے اپنے ملکوں میں مدعوکیا بلکہ ان کی اعلیٰ قیادت سے ملاقاتیں بھی ہوئیں اور شاندار پذیرائی بھی۔ تین سالہ دور سپہ سالار میںکوئی ایسا غیرملکی مہمان نہیں تھا جس نے GHQ آکر جنرل راحیل شریف سے ملاقات نہ کی ہو۔ اس سے انکی قیادت کادخل تھا اور انکے ساتھ ساتھ پاک فوج کی اہمیت بھی اجاگر ہوتی تھی۔ جنرل مشرف کے دور میں فوجی وردی قابل عزت نہیں رہی تھی جس کی بحالی جنرل کیانی کے دور میں شروع ہوئی اور جنرل راحیل شریف کے دور میںقابل عزت ٹھہری۔ سینکڑوں فوجیوں نے دہشتگردی کا مقابلہ کیا اور جام شہادت حاصل کی۔ امریکہ اور بھارت کو آنکھیں دکھانے والا لیڈر بھی یہی تھا۔ ملا اختر منصور کو پاکستانی حدود میں مارکر امریکہ نے توکامیابی حاصل کرلی‘ لیکن جنرل راحیل نے اس پر شدید ردعمل کا اظہارکیا اور امریکن پاکستان آکر وضاحتیں پیش کرتے رہے۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم کی انتہاکردی تو اس پر بھی سخت احتجاج کیا اور اعلان کیا کہ ملکی سلامتی کیلئے آخری حد سے بھی آگے جائنگے۔نئے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کیلئے بہت بڑے چیلنج ہیں۔ وہ سابق آرمی چیف کی پیروی کریں یانہ کریں‘ لیکن انکو ہر وقت متحرک رہنا ہوگا۔ اگلے مورچوں پر جانا ہوگا۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ کو آگے بڑھانا ہوگا۔کشمیرکی آزادی کیلئے پاکستان کے اصولی مؤقف کی حمایت کرنا ہوگی۔ سول حکومت کی بھارت سے دوستی کے خواب کو پاکستان کے مفاد کے مطابق دیکھنا ہوگا۔ جنرل راحیل شریف نے جس طرح جمہوریت اور پارلیمنٹ کا ساتھ دیا اس کو نئے آرمی چیف کو بھی ساتھ لیکر چلنا ہوگا۔ ایک سب سے بڑا مسئلہ ’’ڈان لیکس‘‘ بھی نئے آرمی چیف کیلئے چیلنج ہے جس سے پیچھے ہٹنا ناممکن ہے کیونکہ یہ کورکمانڈرزکا فیصلہ ہے کہ اسکے نتیجے میںنیشنل سکیورٹی breach ہوئی ہے۔ اس طرح دہشت گردی اورکرپشن کے گٹھ جوڑ پر سخت مؤقف لینا ہوگا۔ آج جب کمان کی تبدیلی ہورہی ہے تو ہم جنرل راحیل شریف کو ان کی پاکستان، عوام اور پاک فوج کیلئے خدمات کو شاندار خراج تحسین پیش کرتے ہیں جبکہ نئے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ سابق روایت کو قائم رکھیں گے۔ مثبت اقدامات کوجاری رکھیں گے اور نامکمل ایجنڈا کی تکمیل کرینگے جس میں سرفہرست دہشت گردی اور کرپشن کا گٹھ جوڑ ہے جوکہ ایک ناسورکی طرح معاشرہ میں سرایت کرچکا ہے۔نئے آرمی چیف کویہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ جنرل راحیل شریف کو قوم کی حمایت اور مقبولیت اس لئے نہیں تھی کہ لوگ مارشل لاء چاہتے تھے بلکہ اس لئے تھی کہ لوگ جمہوریت کو مضبوط دیکھناچاہتے تھے اور جمہوریت اس وقت تک مضبوط نہیں ہوسکتی جب تک کرپشن ختم نہیں ہوتی۔ لوٹ مار پر قابو نہیں پایا جاتا۔ لوگوںکو امید تھی کہ جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں سول حکومت اور نیب کرپشن کیخلاف کارروائی کریگی اور آج یہی امید جنرل قمرباجوہ سے ہے۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی فوجی جرنیل اپنی آنکھوںکے سامنے ملک کو لوٹتا ہوا نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی نیا آرمی چیف ڈاکوئوں کی لوٹ مارپر آنکھیں بندکرکے خاموش بیٹھ سکتا ہے۔