اسلام آباد (نامہ نگار‘نوائے وقت رپورٹ‘نیوز ایجنسیاں) سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ ہر بات کا ایک وقت ہوتا ہے، بہت سی باتیں کرنی ہیں، بس ایک دو روز ٹھہر جائیں۔ معزز جج نے کمرہ عدالت میں میڈیا سے بات کرنے سے منع کیا ہے اس لئے بات نہیں کر سکتے۔ منگل کو سابق وزیراعظم اپنی صاحبزادی کے ہمراہ پیشی کے لئے لاہور سے اسلام آباد پہنچے جہاں ایئرپورٹ پر میئر اسلام آباد شیخ انصر نے ان کا استقبال کیا جس کے بعد نواز شریف اور مریم نواز احتساب عدالت پہنچے جہاں سماعت شروع ہونے سے قبل انہوں نے صحافیوں سے مختصر اور غیر رسمی گفتگو کی۔ صحافیوں نے نواز شریف سے پوچھا کہ آپ عدالتی فیصلے پر کیا کہیں گے جس پر نواز شریف نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر ردعمل دینے سے گریز کیا۔ صحافیوں نے میاں نواز شریف سے سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ نواز شریف نے دھرنے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر بھی ردعمل دینے سے گریزکیا۔ ایک صحافی نے مریم نواز سے سوال کیا کہ کیا آپ اسلام آباد ہائیکورٹ کے کل کے فیصلے پر بات کریں گی؟ جواب میں مریم نواز کا کہنا تھا کہ والد کے ہوتے ہوئے میں کیسے بات کر سکتی ہوں۔ سماعت کے بعد نوازشریف اور مریم نواز میڈیا سے بات کئے بغیر پنجاب ہائوس روانہ ہو گئے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کی پیشی پراحتساب عدالت کے اطراف میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے،پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی اور کسی بھی غیر متعلقہ شخص کو جوڈیشل کمپلیکس میں آنے کی اجازت نہیں تھی۔ ٹی وی کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے پنجاب ہائوس میں مسلم لیگ ن کے رہنمائوں سے ملاقات کی اور غیر رسمی گفتگو کے دوران نواز شریف نے احسن اقبال سے دھرنے کی تفصیلات کے بارے میں سوالات کئے۔ نواز شریف نے دریافت کیا کہ دھرنے والوں کو کہاں سے سپورٹ حاصل تھی؟ دھرنے والوں سے معاہدے کے نکات کس نے طے کئے۔ آپریشن سے پہلے تمام وسائل کی فراہمی کو یقینی کیوں نہیں بنایا گیا؟ پہلی کوشش کی ناکامی پر آپریشن کا متبادل طریقہ کیا تھا؟ وزیر داخلہ احسن اقبال نے جواب دیا کہ آپ کو علیحدگی میں آگاہ کروں گا۔ نواز شریف نے عوامی رابطہ مہم جاری رکھنے کا اعلان کر دیا۔ پنجاب ہاؤس میں احتساب عدالت میں پیشی اور آئندہ کی سیاسی و قانونی حکمت عملی پرغور جبکہ حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیم بل اور سیاسی حکمت عملی پر مشاورت بھی کی گئی۔ اجلاس میں نوازشریف کی لندن روانگی سے متعلق بات چیت بھی کی گئی۔ نواز شریف نے کہا دھرنے میں ناکامی کے ذمے داروں کا تعین کیا جائے اور ان کیخلاف سخت ایکشن لیا جائے جبکہ نواز شریف وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سے متعلق بھی برہم ہوئے۔ وزیر داخلہ احسن اقبال نے اپنی بریفنگ میں نواز شریف کو بتایا کہ وہ فوری طور پر آپریشن نہیں کرنا چاہتے تھے۔ وہ مزید وقت اور مذاکرات سے یہ مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے مگر عدالتی احکامات کی پیروی میں انتظامیہ نے آپریشن کیا جن کا تعین کررہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف نے احسن اقبال اور طلال چودھری سے علیحدگی میں بھی ملاقات کی جس میں دونوں وزرا نے سابق وزیراعظم کو دھرنے کے بارے میں بریفنگ دی۔ دوسری جانب اس موقع پر میاں نوازشریف سے پشتونخوا میپ کے محمود اچکزئی نے بھی ملاقات کی اور پیپلزپارٹی سے رابطوں کے بارے میں آگاہ کیا۔ سابق وزیراعظم نے کارکنوں سے خطاب میں کہا کہ میرے خلاف پانامہ کیس کا فیصلہ حقائق کے منافی تھا۔ عدالتی فیصلے کو عوام نے قبول نہیں کیا۔ پاکستان کے عوام اور پارٹی کارکن میرے ساتھ کھڑے ہیں۔ دنیا کے کسی ملک میں یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ دنیا کے مہذب ممالک نے جمہوریت کے ذریعے ترقی کی۔ آمریت میں کسی ملک نے ترقی نہیں کی۔ ہمارے ہاں جمہوریت کا خون ہوتا ہے۔ ستر سال سے ملک کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ افسوسناک ہے۔ کبھی وزیراعظم کو ہٹایا اور کبھی پھانسی دیدی جاتی ہے۔ کبھی گرفتار اور کبھی جلاوطن کر دیا جاتا ہے۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا پاکستانی عوام اور پارٹی کارکن میرے ساتھ کھڑے ہیں، جلد میں اور آپ پاکستان کی ترقی کیلئے ایک عہد کریں گے۔ جمہوریت کے تحفظ کیلئے سیاسی جماعتوں، کارکنوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کروں گا۔ صحافیوں نے نواز شریف سے عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی وطن واپسی سے متعلق بھی سوال پوچھا کہ ایک دھرنے والے چلے گئے اب دوسرے آگئے ہیں جس پر نوازشریف مسکرائے اور کوئی جواب دیئے بغیر گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔
اسلام آباد (صباح نیوز) اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے خلاف ایون فیلڈ اپارٹمنٹس، عزیزیہ سٹیل مل اور فلیگ شپ انوسٹمنٹ ریفرنسز کی سماعت بغیر کارروائی کے آئندہ پیر 4دسمبر تک ملتوی کر دی۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے مختصر سماعت کی۔ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر عدالت میں پیش ہوئے جبکہ نواز شریف کے وکیل سپریم کورٹ آف پاکستان میں مصروف ہونے کی وجہ سے احتساب عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ نواز شریف کی جانب سے سماعت ملتوی کرنے کی درخواست دائر کی گئی تاہم نیب نے مخالفت کی۔ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی کا کہنا تھا کہ گواہان موجود ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی کوئی حکم امتناع جاری نہیں کیا اور احتساب عدالت کو مزید کارروائی سے نہیں روکا لہٰذا سماعت ملتوی نہ کی جائے۔ نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالہ سے اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور کوئی تاریخ بھی مقرر نہیں کی گئی کب فیصلہ جاری کیا جائے گا۔ ٹرائل میں تاخیر ہو سکتی ہے لہٰذا سماعت جاری رکھی جائے اور گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے جائیں، تمام گواہ موجود ہیں اور وہ عدالت میں اپنی حاضری یقینی بنائے ہوئے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ آتا ہے یا نہیں آتا آئندہ سماعت پر گواہوں کے بیانات ہر صورت ریکارڈ ہوں گے اور گواہوں پر جرح ہو گی۔ احتساب عدالت کا کہنا تھا کہ یہ سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ سے مشروط نہیں ہے جبکہ ایک مزید گواہ کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔ خواجہ حارث کے معاون وکیل نے عدالت سے استدعا کی اسلام آباد ہائیکورٹ میں ریفرنسز کو یکجا کر کے ایک فرد جرم عائد کرنے کے حوالے سے فیصلہ کر لیا گیا ہے اور اس کا انتظار کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا توقع ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ اسی ہفتے فیصلہ سنا دے گی لہٰذا بہتر ہے کہ سماعت کو ملتوی کر دیا جائے اور فیصلہ کے بعد سماعت کی جائے۔ معاون وکیل کا کہنا تھا اگر عدالت سمجھتی ہے کہ ہماری وجہ سے تاخیر ہو رہی ہے تو پھر آئندہ ہفتے پیر سے ہم تین دن کے لئے مسلسل دستیاب ہوں گے جبکہ نوازشریف اور مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کے معاملہ پر بھی چار دسمبر کو بحث ہو گی۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کی عدم موجودگی کے باعث درخواستوں پر سماعت نہیں ہوئی۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت چار دسمبر تک ملتوی کر دی۔ منگل کے روز نواز شریف کمرہ عدالت میں احتساب عدالت کے جج کی آمد سے قبل پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے معاملات پر بات کرتے رہے۔ نوازشریف آصف کرمانی سے تبادلہ خیال کرتے رہے اور کچھ فائلوں پر دستخط بھی کئے ، مریم نواز اپنی نشست پر موجود رہیں جبکہ کیپٹن (ر) محمد صفدر آخری نشستوں پر بیٹھے تسبیح کرتے رہے۔