حدیبیہ کیس: اصل ریفرنس نہیں ملا، نیب: پھر کیا سُنیں، سپریم کورٹ: مکمل ریکارڈ طلب

Nov 29, 2017

اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ نے شریف فیملی کے خلاف حدیبیہ پیپرز ملز کیس کو دوبارہ کھو لنے کے حوالے سے نیب کی اپیل کی سماعت کرتے ہوئے احتساب عدالت کی مکمل ڈائری، حکمنامے اور دیگر ضروری دستاویزات، ملزمان کے عوامی عہدوں پر رہنے کے دورانیہ، ان کی جلا وطنی اور ملک واپسی کی تاریخیں، سابق ادوار میں ریفرنس دائر ہونے کے وقت اور بعد میں تعینات کئے جانے والے نیب کے چیئرمین، ان کی تقرری کی اتھارٹی، حدیبیہ ریفرنس کی ابتدائی شکایت کرنے والے اور دوبارہ کھولنے والوں کے نام، احتساب عدالت میں مقدمہ کا مکمل ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔ عدالت نے اس کیس میں اثر و رسوخ کے استعمال بارے بھی سوال اٹھا دئیے ہیں۔ نیب اپیل کی سماعت جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ عدالت نے دوران سماعت پانامہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے حدیبیہ کیس سے متعلقہ والیم آٹھ اور آٹھ اے کو بھی منگوا لیا جس کے متعلقہ حصوں کو ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے پڑھا۔ نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عمران الحق نے سماعت کو ایک ماہ کے لیے ملتوی کر نے کی استدعا کی جس کو عدالت نے مسترد کرتے ہوئے سماعت 11 دسمبر تک ملتوی کر دی۔ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم کیس کو جلد سننا چاہتے ہیں آپ جو کام ایک ہفتے میں نہیں کر سکتے وہ چار ہفتو ں میں بھی نہیں کر سکتے، سارا ریکارڈ آپ کے پاس پڑا ہوگا اس کو پیش کر دیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اصل ریفرنس ہمارے لیے متعلقہ ہے وہ کہاں ہے؟ تاریخیں ہمارے لیے بہت اہم ہیں نیب پیش کرے، جب ملزم بیرون ملک سے واپس آئے تو وہ اقتدار میں نہیں تھے تو اثرورسوخ کیسے استعمال ہوا؟ جب یہ ریفرنس بنا تب اور جب نوازشریف ملک واپس آئے تب اقتدار کس کا تھا؟ نواز شریف کے وطن واپس آنے کے بعد یہ ریفرنس دوبارہ کھولنے میں کتنا وقت لگا؟ چیئرمین نیب کس طرح اثرورسوخ لیتا ہے؟ جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ ہمیں مطمئن کریں کہ اثرورسوخ کا معاملہ کس طرح ہوا؟ نیب کی جانب سے سپیشل پراسیکیوٹر عمران الحق نے عدالت کو بتایا کہ 27مارچ 2000کو حدیبیہ ریفرنس داخل ہوا تھا جس کے بعد مختلف ادوار آئے اور آخرکار اس کو لاہور ہائی کورٹ نے تکنیکی بنیادوں پر ختم کر دیا، ابھی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کچھ نئے شواہد سامنے آئے ہیں جن کی روشنی میں دوبارہ کیس کو اوپن کر نے کی استدعا کی ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اصل ریفرنس ہمارے لیے متعلقہ ہے وہ ریفرنس کہاں ہے؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ اصل ریفرنس نہیں مل سکا وہ ریفرنس متعلقہ نہیں جس پر جسٹس مشیر عالم نے کہا کہ جب ریفرنس ہی سامنے نہیں تو کیا سنیں؟ اس موقع پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 'پٹیشن کیا ہے؟ سنائیں پھر دیکھتے ہیںجس کے بعد نیب پراسیکیوٹر نے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ کو پٹیشن پڑھ کر سنائی نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ جب کیس چل رہا تھا تو ملزم باہر چلے گئے تھے جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ ملزم خود گئے تھے یا انہیں جبراً بھجوایا گیا؟ نیب کا کیس یہ ہے کہ ملزموں کی طرف سے 2014ء اثر و رسوخ استعمال کرکے کیس ختم کرایا گیا، جب یہ ریفرنس بنا تب اقتدار میں کون تھا؟ جب نوازشریف ملک میں واپس آئے تب اقتدار کس کا تھا؟ نواز شریف کے ملک واپس آنے کے بعد یہ ریفرنس دوبارہ کھولنے میں کتنا وقت لگا؟ اور ریفرنس فائل ہونے کے کتنے عرصے بعد اقتدار ملا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ ریفرنس کھولنے میں لگ بھگ 9 ماہ لگے۔ جسٹس فائزعیسیٰ نے استفسار کیا کہ جب ریفرنس بنا اور جب ملزمان ملک میں واپس آئے اور جب وہ اقتدار میں نہیں تھے تو اثرورسوخ کیسے استعمال ہوا؟ بہتر ہے کہ نیب ایک چارٹ بناکر پیش کرے جس میں تاریخیں لکھے، 'تاریخیں ہمارے لیے بہت اہم ہیںتو سپیشل پراسیکیوٹر عمران الحق نے کہا کہ وہ متعلقہ ریکارڈ عدالت میں پیش کر دیں گے انہوں نے مزید کہا کہ پانامہ جے آئی ٹی نے اپنی تحقیقات میں اس کیس کے حوالے سے مزید دستاویزات اکٹھی کی ہیں جن میں حدیبیہ سے متعلق بھی معلومات سامنے آئی ہیں، عدالت کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے والیم آٹھ اور آٹھ اے میں اس بارے میں معلومات شامل ہیں تو عدالت نے جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم 8 اور 8 اے منگوا لیے، اسپیشل پراسیکیوٹر نیب نے مزید بتایا کہ منی لانڈرنگ کیلیے اکنامک ریفارمز ایکٹ کا سہارا لیا گیا، شریف خاندان کے پاس بڑی تعداد میں غیر قانونی رقم موجود ہے، اسحاق ڈار کے زریعے جعلی بینک اکاونٹس کھولے گئے، جبکہ ریفرنس کے دوران اسحاق ڈار کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا،ملزمان نے ان غیر قانونی کامو ں کے لیے اسحق ڈار کو استعمال کیا۔ جسٹس قاضی ٰفائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ نیب کی نظر میں نواز شریف خود باہر گئے یا بھیجے گئے تھے کیونکہ خود با ہر جانے اور جبراً بھجوانے میں فرق ہے جس پر پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ اس وقت ملزمان اور چیف ایگزیکٹو کے درمیان معاہدہ ہوا اور ملزمان کو با ہر بھجوایا گیا ، نیب پراسیکیوٹر نے بتایا لاھور ہائیکورٹ نے 2014 میں ریفرنس خارج کیا اور اس وقت نیب کو از سر نو تحقیقات سے روکا تھا، جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر باہر بھجوانے پر مجبور کریں تو مفرور کیسے ہو گا۔ عدالت کے استفسار پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ ملزمان 27مارچ 2007کو ملک میں واپس آئے اور بحالی کی درخواست دی تھی لیکن لاھور ہائی کورٹ نے ان حقائق کی بنیاد پر ریفرنس خارج نہیں کیا بلکہ مختلف گرائونڈ تھیں جن کی بنیاد پر ریفرنس کو خارج کیا گیا ،نیب کے قوانین کے مطابق ملزمان نے کرپشن کی ہے اس لیے اس کو ری اوپن کیا جائے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ریفرنس طویل مدت کیلیے زیر التوا نہیں رکھا جا سکتا، عدالت نے نیب سے حدیبیہ کیس سے متعلق تمام ریکارڈ طلب کرلیا ہے جبکہ عدالت نے نیب سے چیئرمین نیب کے تقرر کیلئے تعلیمی اہلیت کے معیار سے متعلق تفصیلات بھی طلب کر لیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہم کیس جلد سن کر فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔

مزیدخبریں