واشنگٹن/کابل (نوائے وقت رپورٹ+ اے ایف پی+ این این آئی) افغانستان میں امریکی جنرل جان نکلسن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ امریکی صدر کے سخت موقف کے باوجود پاکستانی رویے میں تبدیلی نہیں آئی ہم نے پاکستان سے بہت واضح اور صاف موقف بیان کیا۔ پاکستان کے رویے میں تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں۔ سرحد پار کارروائی کرنے والے دہشتگردوں کو پاکستان ختم کرے اس کیلئے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں، طالبان کی سینئر قیادت پاکستان اور نچلی قیادت افغانستان میں ہے۔ آئی این پی کے مطابق جنرل جان نکلسن نے کہا دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں اور ٹھکانوں کیخلاف ٹھوس کاروائی کیلئے پاکستان پر مزید دبائو ڈالا جائے گا۔ افغان میڈیا کے مطابق شمال مشرقی صوبہ قندوز میں افغان حکام کے ساتھ ایک ملاقات میں جنرل جان نکلسن نے کہاکہ افغان فوجیوں کے ساتھ عسکریت پسندوں کے خلاف لڑنے والے امریکی فوجیوں کو مستقبل قریب میں مزید فضائی طاقت کے وسائل مل جائیں گے۔ طالبان پر فتح حاصل کرنے کے قابل ہوسکیں گے کیونکہ ملک میں امریکی فورسز مزید فضائی سہولیات اور وسائل حاصل کررہی ہے۔ امریکی جنرل کا مزید کہنا تھاکہ امریکہ دہشتگردی کی محفوظ پناہ گاہوں اور ٹھکانوں کیخلاف ٹھوس کاروائی کیلئے پاکستان پر مزید دبائو ڈالنے کی کوشش کررہا ہے ۔ اے ایف پی کے مطابق انہوں نے کہا کہ انتہاپسندی کیخلاف پاکستان اپنے ملک میں سخت جنگ میں مصروف رہا لیکن اسلام آباد کے رویہ میں واضح تبدیلیاں نہیں دیکھیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک ہزار فوجی مشیر اگلے برس جنگ کے دوران اگلے مورچوں پر آپریشن میں حصہ لیں گے۔ علاوہ ازیں این این آئی کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ امریکہ افغانستان میں استحکام اور مصالحت کو فروغ دینے کے لیے پاکستان اور بھارت کے حوالے سے نئے نقطہ نظر کو اپنانے کے لیے غور کر رہا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی مالیاتی ترجیحات پر جاری کردہ سالانہ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی پاکستان اور بھارت کے حوالے سے نیا نقطہ نظر21 اگست کو ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پیش کی جانے والی جنوبی ایشیا کے لئے پالیسی کا یہ اہم عنصر ہے۔ سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے انسپکٹر جنرل سٹیو اے لینیک کا کہنا تھا جنوبی ایشیا اور خصوصی طور پر افغانستان کے حوالے سے پیشرفت کرنے کے لئے ہمیں بھارت اور پاکستان کیلئے نئے نقطہ نظر پر عمل کرنا ہوگا تاکہ دہشت گرد تنظیموں کو پناہ گاہیں نہ مل سکیں۔ ان کا کہنا تھا اس نئی حکمت عملی کا اصل مقصد طالبان سے مصالحت کا عمل اور افغان حکومت کی اپنے عوام کو حفاظت فراہم کرنے کی کوشش میں تعاون فراہم کرنا شامل ہے۔رپورٹ میں سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو پیش آنے والے انتظامی اور کارکردگی کے مسائل اور ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ان مسائل کے حل کے لیے کی گئی کوششوں کو سامنے لایا گیا۔سالانہ رپورٹ میں پاکستان میں جاری انسداد دہشت گردی کی معاونت کے پروگرام کی نگرانی میں درپیش مسائل کو بھی سامنے لاتے ہوئے بتایا گیا سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے پاکستان میں اس معاملے کی تصدیق اور ضروری رپورٹس جمع کرائے جانے کی یقین دہانی کے لیے کوئی نمائندہ موجود نہیں ہے جبکہ بیورو نے اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے پیش رفت کو جانچنے کے کوئی معنی خیز ذرائع بھی نہیں اپنائے ہیں۔رپورٹ میں پاکستان سے ویزا حاصل کرنے میں پیش ہونے والے مسائل کو بھی سامنے رکھا گیا اور بتایا گیا کہ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ انسداد دہشت گردی کی معاونت کے پروگرام میں نظر رکھنے اور تحقیقات کی ضروریات کو پورا کرتے ہوئے اسے بہتر بنا سکتا ہے۔ رپورٹ میں تجویز دی گئی ایسی صورتحال میں، جس میں کام کرنے کے ماحول میں حکومت کی جانب سے جاری دستاویزات میں ترمیم کی جائیں، تو سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ذمہ دار اہلکار کی جانب سے ان ترامیم کو گائیڈ لائنز میں بھی شامل کیا جانا چاہیے۔رپورٹ میں نشاندہی کی گئی احتساب کے ماحول میں پیش آنے والے مسائل کو صرف گرانٹ حاصل کرنے والوں تک محدود نہ رکھا جائے۔ رپورٹ میں بتایا گیا امریکی سکیورٹی پالیسیز نے پاکستان سے رابطوں میں مشکلات پیدا کردی ہیں۔ ان میں اہلکاروں کو ملک میں سفر کرنے پر پابندی عائد کرنے جیسے عوامل بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا افغانستان میں جہاد نہیں کرپشن کی جنگ ہے، ایسے حالات میں جیت نہیں سکتے، اپنی سرگرمیاں دگنا کردیں۔ طالبان کے خلاف فضائی کارروائیوں میں اضافہ کررہے ہیں، قیام امن کیلئے پاکستان کے ساتھ کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔
طالبان کی سینئر قیادت پاکستان میں ہے ٹرمپ کے سخت موقف سے بھی رویہ نہیں بدلا :امریکی جنرل
Nov 29, 2017