پاکستان کی تاریخ میں احتساب کے نعرے اس قدر بلند اہم سنگ کے ساتھ ہوتے رہے ہیں لیکن کبھی احتساب اور حقیقی معنوں میں احتساب نہیں ہوا اور آج بھی احتساب احتساب کا جو شور بلند ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی جبکہ تاریخ کے صفحات احتساب کے حوالہ سے بھرے پڑے ہیں اور جو لوگ سب کے احتساب کا نعرہ بلند کر رہے ہیں وہ خود کو دھوکہ دے رہے ہیں یا قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں وہ احمقوں کی دنیا میں بستے ہیں۔ بادشاہی دور حکومت اور جمہوری دور حکومت میں ہمیشہ احتساب ماضی کے حکمرانوں کا ہی ہوتا آیا ہے اور یہ تاریخی روایت ہے اور اس سے انحراف ممکن نہیں ہے ماسوائے اسلامی ریاست جسے تاریخ میں ریاست مدینہ کا نام دیا جاتا ہے اور اب اس جدید ترین جمہوری دور میں یقین ہے کہ جو احتساب سب کا نعرہ بلند کر رہے ہیں دراصل انہیں خوف ہے کہ کہیں احتسابی تلوار ان کی طرف اپنا رخ نہ کر لے جو احتساب کی زد میں آ سکتی ہیں انہوں نے چاہے حکمران جماعت کی چھتری تلے پناہ ہی یوں نہ حاصل کر لی ہو، ان کے جرائم پرپردہ نہیں ڈالا جا سکتا۔ احتساب کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے لیکن انہوں نے اپنی ذات کے حوالہ سے ان افراد کی بھرپور امداد بھی کی ہوتی ہے جو ذات خود احتساب کی تلوار کی زد میں آتے ہیں۔ چور کے ساتھی چور ہی ہوتے ہیں۔ نیب جو کہ احتسابی ادارہ ہے اور اس کے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال احتساب کے حوالہ سے بہت سے دعوے کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں شخصیت سے کوئی غرض نہیں، اس منطق سے شدید اختلاف ہے اس لئے کہ احتساب کی جڑ شخصیات اور اس کے اعمال ہوتے ہیں۔ موجودہ حکومت اپنے ابتدائی 100دن پورے کر چکی ہے اور ان 100دنوں میں نیب کی کارکردگی ایک لفظ انکوائری کے سوا کچھ نہیں۔ جو ادارہ 100دنوں میں انکوائری سے آگے ایک قدم نہیں بـڑھا سکیں اور احتساب ہاتھ پر ہاتھ رکھے نظر آتا ہے۔ اگر نیب جسے ایک خودمختار ادارے کا نام دیا جاتا ہے اصولی طور پر اس کی کارکردگی ماسوائے ایک صفر پلس صفر نظر آتی ہے اور اگر یہی رفتار اور روایت جاری رہی تو امید نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ واقعی احتساب کی تلوار کو نیام سے باہر نکالے گا کیونکہ تلوار نیام سے باہر آئے گی لہٰذا قوم احتساب کے حوالہ سے مایوس ہے کیونکہ انہیں احتساب ہوتا نظر نہیں آتا۔ جہاں تک اداروں میں لوٹ مار اور منی لانڈرنگ کا تعلق ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کالر واٹر کرائم کی جڑ تک پہنچ جانا کاردراند ہے۔ کہا جاتا ہے اور بڑی شدت کے ساتھ یہ پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کہ تین مرتبہ کے سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے پراسرار خاموشی اپنے اوپر طاری کر رکھی ہے۔ یہی وہ خوش فہمی ہے اس کا میاں محمد نوازشریف اپنی طے شدہ پالیسی میں مکمل کامیاب چلے آ رہے ۔ میاں محمد نوازشریف نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے اور نہ وہ خاموش ہے بلکہ ایک اصطلاع ہزماسٹروائس کی جمہوری معاشرہ میں چلی آ رہی ہے۔ پاکستانی سیاست میں ایک کردار مسلم لیگ(ن) کے سینئر رہنما احسن اقبال کا بھی ہے اور احسن اقبال جس قدر بیانات جاری کرتے ہیں زبان اور چہرہ احسن اقبال کا ہوتا ہے اور زبان میاں محمد نوازشریف اور مریم نواز کی ہوتی ہے اور اس آواز میں آواز للکارنیکا فریضہ مریم اورنگزیب ادا کرتی اور خواجہ سعد رفیق سہ آتشی کردار ادا کرتے ہیں۔ لہٰذا کوئی شخص اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ میاں محمد نوازشریف نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے بلکہ پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ بھی اتحاد کا کردار ادا کرتے ہوئے میاں محمد نوازشریف کے مشن کو ہی پورا کر رہے ہیں اور پیپلزپارٹی کے رضا ربانی تو سونیپر سہاگہ کے مصداق نیب کا بسترا ہی گول کرنے کے درپے ہیں۔ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کی مشترکہ سعی و کاوش ہے کہ اس قدر دباؤ ڈالا جائے کہ نیب جسے خودمختار ادارہ کے اوپر ایک اور ادارہ قائم کرے، نیب کے پر ہی کاٹ دیئے جائیں جبکہ نیب خود کو اپنے کردار اور افعال کے اعتبار سے محض ایک انکوائری ادارہ کے آگے ایک قدم بھی بڑھا۔ حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے افراد اور تحریک انصاف کی چھتری تلے پناہ لینے والے افراد کے الفاظ نیب کی کارکردگی یہ ہے کہ وہ کسی شخص کو انکوائری میں طلب کرتے اور چائے نوشی کے سوا نیب کی کوئی کارکردگی اور کہہ سکتے کہ نیب کی کارکردگی صفر پلس صفر کے آگے ایک قدم بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اگر یہی روایت جاری رہی تو نیب آئندہ ایک سال میں بھی قوم کو انکوائری کا سبزباغ دکھانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کر سکیں اور نہ اصل کام جو کہ کسی بھی وائٹ کالر اور جرائم یعنی لوٹ مار میں ملوث ہونے کے ناطے احتساب عدالت میں ریفرنس یعنی چالان پیش کرنے کا تعلق وہ پیش نہیں کر سکیں گے کیونکہ عدالت میں کسی سوال پر نیب کے نمائندے سے کوئی ثبوت مانگا جاتا ہے تو وہ بڑے معصوم بن کر جواب دیتا ہے کہ گھر بھول آیا ہوں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ قوم کے ساتھ ایک سنگین مذاق ہو رہا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن مل کر یہ مذاق کر رہے ہیں۔ کہنے کو میا ںمحمد شہبازشریف گرفتار ہیں لیکن ان کی سرگرمیاں پروٹوکول کے ساتھ جاری ہیں۔ میاں محمد نوازشریف سزایافتہ ہیں لیکن ان کی سرگرمیوں سے قیدی ہونے کا دور دور تک نشان نہیں ہے۔ حکومت نے احتساب کا تمام بوجھ نیب پر ڈالا ہوا ہے لیکن نیب اپنے دعوؤں کے برعکس نیب سے زیادہ حکومت اور اپوزیشن میں ہردلعزیز بننے کے چکر میں ہیں۔ لہٰذا دل کا اسے چکر بودی ایسے چلتا رکھنا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ اب تک ساٹھ افراد کو پس زندان ہونا چاہیے تھا اور میں کرپشن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کروں گا۔ اس سے بڑا اور کیا سمجھوتہ ہو سکتا ہے کہ نیب عوام کا پیٹ باتوں سے بھر کر رہا ہے عمران خان کی حکومت چلی ہے یا نہیں لیکن زمینی حقائق یوں کہ عمران خان کو جب سب سے بڑا مسئلہ معاشی بحران سے نمٹنا ہے چین، سعودی عرب، متحدہ امارات، ملائیشیا کے دوروں کے باوجود نہ مارکیٹ میں استحکام آیا ہے اور نہ مہنگائی کا طوفان رکا ہے اور نہ ہی ڈالر کی اڑان میں کوئی خاص فرق پڑا ہے سب کو توقع ہے کہ عمران خان مالی معاملات اور معاشی صورت حال کو بہتر کر دے۔ ابھی تک کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ لہٰذا نیب انکوائریوں سے نکل کر خود کو ایک عملی اور احتساب ادارہ قائم کرنے کے لئے نیام سے تلوار نہیں نکالتا اور آئندہ تین ماہ میں زندان آباد نہیں کرتا اور عمران خان کرپشن کی ’’قوالی‘‘ کا رنگ اپناتے ہوئے کرپشن میں ملوث افراد سے اپنی صف کو پاک نہیں کرتے اس وقت تک بیل مونڈے نہیں چڑھے گی۔ ہماری لت تو یہ ہے کہ ایمان کی حرکت والوں نے شب بھر میں مسجد تو تعمیر کر دی، من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں سے نمازی بن نہ سکا کے مصداق من کا پاپی من دور کئے بغیر نیا پاکستان کا خواب خواب ہی رہے گا۔ عوام جو امید کی کرنوں میں سحر سحر اجالا کی شفق روشنی دیکھنے کی آرزو رکھتے تھے وہ اجالا کہیں داغ میں نہ بدل جائے۔ لہٰذا معاشی ترقی اور انصاف کو پاکستان کی ترقی، خوشحالی اور استحکام کی منزل قرار دے کر پیش رو کرنا ہو ورنہ عمران خان کو خاموشی کے ساتھ چادر اوڑھ کر سیاست کی بجائے سماجی اور رفاعی کاموں میں اپنی دلچسپی کا مظاہرہ کرنا شرعوع کر دینا چاہیے۔
نیب کی پھرتیاں عمل کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتی
Nov 29, 2018