’’سی پیک پرامریکی ڈپلومیسی حملہ‘‘

واشنگٹن میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنوبی ایشیا کے لیے قائم مقام نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز نے کہا کہ سی پیک منصوبے کو دونوں ممالک گیم چینجر منصوبہ قرار دیتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس کا فائدہ بیجنگ کو ہو گا ۔ یہ واضح ہے کہ سی پیک کا مطلب امداد نہیں ہے۔ اربوں ڈالرز کے منصوبے میں غیر روایتی قرضے دئیے جا رہے ہیں جس میں چینی کمپنیاں اپنے ہی مزدور اور سامان بھیج رہی ہیں۔ سی پیک کاابتدائی طور پر چینی مزدوروں اور سپلائرز پر انحصار ہے، باوجود اس کے کہ پاکستان میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔ یہ راہداری پاکستانی معیشت کو بہت بڑا نقصان پہنچانے والی ہے۔ بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب بہت زیادہ ادائیگیاں اگلے چار تا چھ برس میں شروع ہو جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کو کرپشن سے متعلق تحقیقات میں اِستثنا حاصل ہے۔ہم نے بھی زیادہ بہتر معاشی ماڈل کی پاکستان کو پیش کش کی ہے پاکستان کو اس پیشکش سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔
سی پیک کے خلاف امریکہ اور انڈیا ایک جیسا مؤقف سازشیں اور اقدامات کر رہے ہیں۔ سی پیک کے آغاز کے ساتھ ہی بلوچستان میں دہشت گردی اور خوف و ہراس اور انسانی خون بہانے کی ایسی سنگین صورتحال پیدا کر دی گئی کہ جسے کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان کی قومی سلامتی کے اداروں کو بیش بہا اور بھاری قربانیاں دینا پڑیں۔
کراچی میں دہشت گردی کے نہ تھمنے والے واقعات کا سلسلہ شروع ہوا۔ گوادر کے علاقے کو اور سی پیک راہداری کو بطور خاص دہشت گردی پھیلانے کے لیے دشمن قوتوں نے اپنا ہدف بنایا۔صوبہ کے پی کے میں بھی سی پیک راہداری اور اس سے منسلک شہروں اور علاقوں کو دہشت گردی پھیلانے کے لیے منتخب کیا گیا ۔افواج پاکستان، پاکستان رینجرز اور قومی سلامتی کے دیگر اداروں نے سالہا سال کی مسلسل محنت اور جانفشانی کے بعد دشمن قوتوں کے سی پیک راہداری کے خلاف منصوبوں اور سازشوں کو نیست و نابود کر دیا اور سی پیک راہداری کا فیز وِن 2019ء کی آخری سہ ماہی میں اپنی تکمیل کا ہدف پورا کر رہا ہے۔
جُوں جُوں سی پیک راہداری کا منصوبہ کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اسی قدر زیادہ امریکہ اور انڈیا کی بے چینیوں اور اضطراب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جنوبی ایشیا کے لیے قائم مقام نائب امریکی وزیر خارجہ ایلس ویلز کے خیالات سی پیک منصوبہ کے خلاف امریکی پالیسی کے ترجمان ہیں۔ یہ امریکہ کی طرف سے سی پیک پر ڈپلومیسی حملہ ہے۔ یہ ڈپلومیسی حملہ بیک وقت پاکستان اور چین کو نشانہ بنا کر کیا گیا ہے۔پاکستان اور چین دونوں ملکوں نے پوری مضبوطی اور قوت کے ساتھ امریکی ڈپلومیٹک حملے کا بھرپور اور مؤثر جواب دیا ہے۔
اسلام آباد میں پانچویں سی پیک میڈیا فورم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چین کے سفیر عزت مآب مسٹر یائو جنگ نے کہاکہ امریکہ کے الزامات سُن کر حیرانی ہوئی، سی پیک پاکستان اور چین کی حکومتوں کے درمیان تعاون سے چلنے والا منصوبہ ہے۔ اس سلسلہ میں چینی سفیر مسٹر یائو جنگ نے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ چین کے موقع پر اُن کے خطاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ سی پیک اُن کی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ اس منصوبے کی کامیابی چین کے لیے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ دونوں حکومتوں نے منصوبہ آگے بڑھانے کے لیے بہترین کوششیں کی ہیں۔ اب تک بڑی معاشی کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ الزام غلط ہے کہ سی پیک ایک ڈیٹ ٹریپ ہے۔
چین پاکستان کو قرضہ فراہم کرنے والے ممالک میں سب سے بڑا ملک نہیں ہے اور نہ ہی چین نے پاکستان سے قرضہ واپس مانگا ہے۔
چینی سفیر عزت مآب مسٹر یاو جنگ نے کہا کہ چین پاکستان کے مختلف شعبوں میں تعاون کرتا رہا ہے جبکہ امریکا نے سیاسی مقاصد کے لیے پاکستان کی سپورٹ معطل کی۔پاکستان اور چین مشکل وقت میں ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے رہے ہیں۔ چینی سفیر عزت مآب یائو جنگ نے کہا پاکستان میں جب زلزلہ آیا تو چین نے بھرپور مدد کی۔ اسی طرح چین میں زلزلے نے تباہی مچائی تو پاکستان نے چین کی مدد کی۔ چین پاکستان کی امداد سے بڑھ کر تجارت کی ترقی میں مدد کا خواہاں ہے۔ چین چاہتا ہے کہ پاکستان میں صنعتی ترقی کو فروغ حاصل ہو اور برآمدات میں اضافہ ہو۔ امریکی الزامات کا جواب دیتے ہوئے چین کے سفیر عزت مآب مسٹر یاو جنگ نے کہا امریکی نائب وزیر خارجہ سی پیک پر تبصرہ سے پہلے احتیاط سے کام لیں اور جھوٹے الزامات نہ لگائیں۔
اگر ان کے پاس سی پیک میں کرپشن کے ثبوت ہیں تو وہ ثبوت فراہم کریں۔ سی پیک اِن کا مسئلہ اور درد سر نہیں ہونا چاہئے۔ چینی سفیر عزت مآب مسٹر یائو جنگ نے پانچویں سی پیک میڈیا فورم کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا میں نے سی پیک منصوبہ کے حوالے سے حکومت پاکستان چیئرمین نیب اور دیگر اداروں سے بات چیت کی ہے اب تک کرپشن کا ایک ثبوت بھی نہیں ملا۔سی پیک کرپشن سے پاک منصوبہ ہے۔
پاکستان نے بھی امریکی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کے بیان کو مکمل طور پر مسترد کرکے سی پیک منصوبے کو فائدہ مند اور پاکستان کی ضرورت قرار دیا ہے۔ جس میں دونوں ملک باہمی تعاون سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سی پیک منصوبے کو دونوں ملکوں کے لیے یکساں مفید اور باہمی تعاون کا منصوبہ قرار دیا ہے۔
اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف نے بھی ایلس ویلز کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے سی پیک منصوبے کو شفاف اور فائدہ مند قرار دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں خود مختلف مراحل پر اس منصوبے کا حصہ رہا ہوں۔ سی پیک منصوبہ باہمی تعاون اور شفافیت کا منصوبہ ہے۔
امریکی سفیر مسٹر پال جانز نے اپنے دورہ لاہور کے دوران کہا کہ سی پیک پر ایلس ویلز کا بیان امریکی پالیسی ہے پاکستانیوں کو سمجھنا چاہئے ۔
سی پیک منصوبہ کے فیز ٹو کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی گزشتہ دنوں خوش خبری سُنا چکے ہیں۔ اِدھر امریکی ڈپلومیٹک فورس اس شفاف اور کامیاب منصوبہ کو ناکام بنانے کے درپے ہے۔ان حالات میں پاکستان اور چین کی ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔
پاکستان کے لیے داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر مضبوط اور ٹھوس پالیسیوں کو آگے بڑھانا ہو گا اور امریکی ڈپلومیسی کے مضمرات سے سی پیک اور پاکستان کو بچانا ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن