موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کی تباہی‘ اقوام متحدہ کی فکرمندی

اقوام متحدہ نے گرین ہائوس گیسز سے متعلق سالانہ جائزہ میں کہا ہے کہ اگر فوری طور پر کوشش نہ کی گئی تو دنیا موسمیاتی تبدیلی میں ہونے والی تباہی کو دور کرنے کا موقع کھودیگی۔
فرانسیسی خبررساں ادارے کی رپورٹ کیمطابق اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام میں بتایا گیا ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کیلئے گرین ہائوس گیسز کا عالمی اخراج 2023 تک ہرسال 7.6 فیصد کم ہونا ضروری ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عالمی سطح پر گرین ہائوسز گیسز کا اخراج گزشتہ ایک دہائی سے سالانہ 1.5 فیصد اوسط اضافہ ہوا جس کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی سے متعلق 195 ممالک کی جانب سے پیرس معاہدے پر دستخط کے 3 سال بعد 2018 میں کاربن ڈائی آکسائیڈ یا مساوی گرین ہائوس گیسز کا اخراج 55.3 بلین ٹنز کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا جبکہ پیرس معاہدے کو حالیہ طور پر مدنظر رکھ کر بھی دنیا درجہ حرارت میں 3.2 سینٹی گریڈ اضافے کی جانب گامزن ہے جس سے سائنسدانوں کو معاشرے کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔ عالمی ماحولیاتی آلودگی اس وقت دنیا بھر میں ایک بڑا چیلنج بنتی جارہی ہے جس کے پیش نظر اقوام متحدہ کو بھی فکر لاحق ہوگئی۔ دنیا کا بڑھتا ہوا درجہ حرارت انسانی اور حیوانی حیات دونوں ہی کیلئے خطرناک ہوتا جارہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ جنگلات کا تیزی سے ختم ہونا ‘ ترقیاتی کاموں کے باعث درختوں کا کاٹنا بھی ہے جس سے اس کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں روزافزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ اس وقت پاکستان سمیت کئی ممالک سموگ کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں جبکہ بھارت کی جانب سے فصل کی کٹائی کے بعد اسکی باقیات کو جلا کر اس سموگ میں زیادہ اضافہ کردیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی فکرمندی درست ہے کہ اگر فوری کوشش نہ کی گئی تو دنیا موسمیاتی تبدیلی میں ہونیوالی تباہی کو دور کرنے کا موقع کھو دیگی۔ اس کیلئے اسے اپنا مؤثر کردار ادا کرتے ہوئے ایسے اقدامات بروئے کار لانے چاہئیں جس سے اس چیلنج سے نمٹا جاسکے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہر ملک اپنے بھرپور کردار اور تعاون سے اس پر قابو پانے کی کوشش کرے۔ حکومت پاکستان پہلے ہی ماحولیاتی آلودگی کو چیلنج سمجھ کر شجرکاری مہم کا آغاز کرچکی ہے۔ شجر کاری اور جنگلات میں اضافہ کرکے ہی اس کا سدباب کیا جاسکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن