بالآخر وزیراعظم عمران خان کی مسلم لیگ (ق) کے صدر و سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین سے ملاقات ہو ہی گئی اقتدار میں آنے کے بعد ان کی پہلی ملاقات بنی گالہ میں ہوئی تھی لیکن اسکے بعد وزیر اعظم نے چوہدری برادارن سے کوئی ملاقات کی اور نہ چوہدری برادران وزیر اعظم ہائوس آئے دونوں اتحادی جماعتوں کی قیادت نے عام انتخابات کے بعد پانچ سال اکھٹے رہنے کا معاہدہ کیا اور اسکے ساتھ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان ایک معاہدہ بھی ہوا جس کے تحت مسلم لیگ (ق) کے وزراء اور ارکان کے حلقہ ہائے نیابت میں ان کو باختیار بنانے کا وعدہ کیا گیا ۔ اس معاہدہ پر بوجوہ پوری طرح عمل درآمد نہ ہوا لیکن دونوں جماعتوں کی قیادت ایک دوسرے سے ’’روٹھی‘‘ تو رہی لیکن کسی نہ کسی طرح یہ اتحاد برقرا ررہا ۔مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے تمام تر ’’ناراضی‘‘ کے باوجود اتحاد کو قائم رکھا اگرچہ یہ کہا جاتا ہے۔
مسلم لیگ (ق) کی اعلی قیادت مونس الٰہی کو وفاقی وزیر نہ بنانے پر ’’ناراض ہے لیکن چوہدری برادران نے کبھی مونس الٰہی کو وزیر بنانے پر اصرار کیا اور نہ ہی اسے ’’ایشو ‘‘ بنایا البتہ ناراضی کی ایک بڑی وجہ وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے چوہدری شجاعت حسین جو شدید علیل رہے کی عیادت نہ کرنا ہے۔ وزیر اعظم نے چوہدری برادران کو ٹیلیفون کرنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں یہی وجہ ہے مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے وزیر اعظم کی جانب سے دئیے گئے ظہرانہ میں شرکت سے انکار کر دیا۔قبل ازیں وزیر اعظم نے حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے ارکان کے اعزاز میں عشائیہ دیا تو اسی شب چوہدری شجاعت حسین نے اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی کے اعزاز میں عشائیہ رکھ لیا ۔ مسلم لیگ (ق) کی قیادت نے موقف اختیار کیا کہ ہم نے پی ٹی آئی سے حکومت سازی کا معاہدہ کیا ہے ان کے ساتھ کھانا کھانے کا کوئی معاہدہ نہیں کیا۔ بہر حال اصل ایشو چوہدری شجاعت حسین کی عیادت کا تھا وزیر اعظم کی طرف سے چوہدری شجاعت کی عیادت نہ کرنے اور لاہور میں آمد پر چوہدری پرویز الٰہی سے ملاقات نہ کرنا دونوں جماعتوں کی قیادت کے درمیان ’’سرد مہری‘‘ کا باعث بنا ۔بالآخر وزیر اعظم عمران خان کو اس بات کا احساس ہو ہی گیا انہوں نے لاہور میں اپنی آمد کے بعد جہاں مختلف اجلاسوں کی صدارت کی وہاں وہ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے ہمراہ شوہدری شجاعت حسین کی عیادت کرنے گلبرگ میں انکی رہائش گاہ پر پہنچ گئے‘ بظاہر کوئی بڑا بریک تھرو نہیں تھا لیکن وزیر اعظم کی چوہدری برادران سے ملاقات ہی سیاسی لحاظ سے بڑا بریک تھرو تھا اس ملاقات میں جہاں وفاقی وزیر ہائوسنگ و ورکس طارق بشیر چیمہ اور چوہدری برادرانکی اگلی نسل مونس الہی اور سالک حسین بھی موجود تھے۔
دونوں جماعتوں کی قیادت کا مل بیٹھنا ہی بریک تھرو تھا اس موقع پر دونوں جماعتوں کی قیادت نے مل کر ساتھ چلنے کے عہد کا اعادہ کیا۔ وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین کے ساتھ 20منٹ تک رہے‘ اس دوران مسلم لیگ (ق) کے رہنمائوں کی جانب سے کوئی مطالبہ تو نہیں کیا ہنسی مذاق میں وزیر اعظم عمران خان سے گلے شکوے کئے گئے چوہدری شجاعت حسین جہاں دیدہ شخصیت ہیں ہمیشہ سمجھ داری بات کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ جناب وزیر اعظم ! آج آپ ہمارے گھر آئے ہیں آپ سے کوئی گلہ شکوہ نہیں بنتا لیکن ایک گلہ ضرور ہے انہوں نے کہا کہ ’’ آپکی پہلی شادی پر آنا چاہتا تھا لیکن آپ نے دعوت نامہ ہی نہیں بھجوایا ، وزیراعظم کی پہلی شادی کے تذکرہ پر عمران خان اور پرویز الٰہی نے زور دار قہقہہ لگایا اور محفل کشت زعفران بن گئی انہوں نے کہا کہ ’’ ہم پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے اتحادی ہیں لیکن ہمیں نظر انداز کیا جاتا رہا ۔ چوہدری برادران کو صرف اس بات کا گلہ تھا کہ چوہدری شجاعت حسین شدید علیل رہے‘ پورے ملک سے لوگوں نے انکی عیادت کی لیکن وزیر اعظم نہ آئے لیکن جب وزیر اعظم چوہدری برادران کی رہائش گاہ گئے تو ان کی زبان پر ان کے نہ آنے کا گلہ نہ آیا۔
مسلم لیگ (ق) کے ایک ذمہ دار رہنما نے بتا کہ مسلم لیگ (ق ) کے رہنمائوں نے وزیر اعظم عمران خان کو یقین دلایا ہے کہ مسلم لیگ (ق) ‘تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت جاری رکھے گی وہ مسلم لیگ (ق) کی جانب سے بے فکر ہو جائیںخرابی صحت کے باوجود چوہدری شجاعت حسین بزلہ سنجی نے محفل کو کشت زعفران بنائے رکھا۔ ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ ’’ چوہدری شجاعت صاحب آپ کی صحت کیلئے دعا گو ہوں، آپ مجھے بھی پرویز الٰہی کی طرح سمجھیں‘‘۔
چوہدری شجاعت حسین نے برجستہ جواب دیا اور کہا یقیناً آپ میرے لئے پرویز الٰہی کی طرح عزیز ہیں چوہدری شجاعت نے کہا کہ لگتا ہے دائیں بائیں کے لوگ آپ تک صحیح بات نہیں پہنچاتے، کوئی بات ہو تو آپ پرویز الٰہی سے براہ راست بات کرلیا کریں جس پر وزیراعظم نے کہا کہ چوہدری صاحب آئندہ ایسا ہی ہو گا۔چوہدری شجاعت نے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ کھڑے ہیں اور مشکل وقت میں بھی کھڑے رہیں گے ، تحریک انصاف کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا ہے ، آئندہ 5 سال آپ کے ساتھ رہیں گے وزیر اعظم کی چوہدری برادران کے درمیان اس ملاقات کے بعد بڑی حد تک غلط فہمیاں دور ہوگئی ہیں۔ چوہدری برادراں کی ایک خوبی یہ بھی ہے وہ جس کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں ڈنکے کی چوٹ ہوتے ہیں اپنے دشمن پر پیٹھ پیچھے وار نہیں کرتے لہذا جہاں تک پاکستان مسلم لیگ (ق) کا تعلق ہے یہ بات کہی جا سکتی ہے آنے والے مشکل دنوں میں پی ٹی آئی کی حکومت کا ساتھ نہیں چھوڑے گی اب پی ٹی آئی کی قیادت کا بھی فرض ہے کہ وہ اتحادی جماعتوں سے کئے گئے وعدے پورے کرے اور اتحادی جماعتوں کو شراکت کا احساس دلائے بصورت دیگر آنیوالے مشکل دنوں میں کسی اتحادی جماعت کے ادھر ادھر ہوجانے سے اقتدار قائم رکھنے میں مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔
٭…٭…٭
عمران خان کی چوہدری برادران سے’’ ملاقات‘‘
Nov 29, 2020