انور عزیز چوہدری مرحوم سے ملاقاتوں کے بارے میں کئی صحافی دوستوں نے لکھا ہے۔ خاکسار کو بھی چوہدری صاحب سے اسی اور نوے کی دہائی کے دوران ملاقاتوں کا اعزاز حاصل رہا، مرحوم ان چند سیاست دانوں میں سے تھے جو انتہائی پڑھے لکھے تھے، انھیں مطالعہ کا بڑا شوق تھا، وہ امریکہ سے پڑھ کر آئے تھے، ان کی بیگم صاحبہ بھی امریکی تھیں۔ چوہدری صاحب کا مطالعہ بڑا ہمہ جہت تھا۔ سیاست ہو یا سماجی امور، زراعت ہو یا سائنس، یا پھر گورننس کے معاملات ہوں، چوہدری صاحب کو سن کر لگتا تھا کہ وہ ہر شعبہ میں مہارت رکھتے ہیں۔ اللہ نے انھیں علم بھی دیا تھا اور حافظہ بھی ان کا بلا کا تھا۔
میری ان سے ملاقاتیں اس دور میں ہوئیں جب وہ مرحوم محمد خان جونیجو کی حکومت میں وزیر بلدیات تھے۔ چوہدری صاحب نے محمد خان جونیجو کو ایک ایسے بلدیاتی نظام کا خاکہ دیا تھا جو اگر پاکستان میں اس وقت نافذ ہو جاتا تو مقامی حکومت کا ایسا نظام وجود میں آ سکتا تھا جو لوگوں کی دہلیز پر انکے مسائل حل کرنے میں بہت موثر ثابت ہو سکتا تھا۔ خاکسار نے چوہدری صاحب سے انکے مجوزہ بلدیاتی نظام پر گفتگو کی اور نوائے وقت میں انکی گفتگو پر مشتمل ایک انٹرویو بھی شائع کیا۔ چوہدری صاحب کو زندگی اور معاشرے کے جو تجربات حاصل تھے۔ وہ بہت کم لوگوں کے حصے میں آتے ہیں، ایک تو وہ امریکہ کے اعلیٰ ادارے سے پڑھ کر آئے تھے، دوسرا وہ پاکستان کی دیہی زندگی کی مشکلات اور مسائل کی بھرپور سمجھ رکھتے تھے۔ انگریزی اور پنجابی زبان میں ان کی گفتگو اور لیکچر سننے کے قابل ہوتے تھے۔
بدقسمتی یہ ہوئی کہ انور عزیز چوہدری بلدیاتی نظام کا وہ خاکہ جونیجو حکومت سے منظور نہ کرا سکے اور اس سے پہلے ان کیخلاف سازشیں شروع ہو گئیں اور ان پر یہ الزام لگا کہ اپنے علاقے شکر گڑھ میں سرکاری فنڈز مبینہ طور پر اپنی ایک این جی او کے ذریعے صرف کر رہے ہیں۔ اس وقت کے اخبارات میں ان باتوں کا بڑا چرچا ہوا اور وزیر اعظم محمد خان جونیجو نے ان سے استعفیٰ لے لیا۔ محمد خان جونیجو جدید سیاسی تاریخ میں شاید وہ واحد وزیر اعظم تھے جنھوں نے بد عنوانی کے الزامات لگنے پر اپنے وزراء سے استعفے لئے تھے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک اور با اثر وزیر صاحبزادہ محی الدین جو اس وقت وزیر تجارت تھے، انکے بارے میں بھی بد عنوانی کا ایک سکینڈل سامنے آیا اور جونیجو مرحوم نے ان سے بھی استعفیٰ لے لیا۔ محمد خان جونیجو کو اگرچہ جنرل ضیاء الحق سندھ سے لائے تھے اور انھیں وزیر اعظم بنایا، وہ بڑے شریف النفس سیاست دان تھے لیکن ان کی جمہوریت پسندی اور بطور وزیراعظم اپنے آپ کو منوانے کی کوشیش انہیں لے ڈوبیں، مرحوم جونیجو نے جنرل ضیاء الحق کے تین قریبی دوستوں وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان، وزیر منصوبہ بندی ڈاکٹر محبوب الحق اور وزیر پیدوار خاقان عباسی کو کابینہ سے فارغ کر دیا اور اپنے قریبی ساتھیوں کو انکی جگہ وزیر بنا دیا۔
بات ہو رہی تھی مرحوم انور عزیز چوہدری کی، چوہدری صاحب ذوالفقار علی بھٹو کی 1977 کے متنازعہ انتخابات کے بعد بننے والی کابینہ میں بھی وزیر تھے۔ بھٹو صاحب کیخلاف قومی اتحاد نے مارچ 1977 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر تحریک چلائی اور یہ تحریک زور پکڑتی گئی۔ نو اپریل 1970 کو لاہور میں قومی اتحاد کے احتجاجی جلوس پر فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں قومی اتحاد کے کئی کارکن جاں بحق ہوئے۔ اس سے یہ تحریک اور شدت اختیار کر گئی۔ بھٹو مرحوم لاہور آئے اور انھوں نے ایک تاریخی پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے ملک میں شراب نوشی اور شراب کی فروخت پر پابندی لگا دی۔ اتوار کی چھٹی کے بجائے جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا اور ملک میں گھوڑوں کی ریس اور ہر طرح کے جوا کھیلنے پر بھی پابندی لگا دی۔ یہ اقدامات بھٹو صاحب نے اپنی اپوزیشن کی تحریک کی شدت کو توڑنے کیلئے کئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اپوزیشن نظام مصطفیٰ کا نعرہ لگا کر تحریک میں زور پیدا کر رہی ہے چنانچہ انھوں نے ان اقدامات کے ذریعے اپنے آپ کو اسلام کا زیادہ بڑا شیدائی بنا کر پیش کیا۔ اس وقت کی اپوزیشن مسٹر بھٹو پر شراب نوشی کا الزام بھی لگا رہی تھی۔ جس پر مسٹر بھٹو نے ایک جلسے میں کہا تھا ’’ہاں میں تھوڑی سی شراب پیتا ہوں لیکن انسانوں کا خون نہیں پیتا‘‘۔
مرحوم انور عزیز چوہدری سے جب اسلام آباد میں 80 کی دہائی کے آخر میں ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے استفسار کیا کہ وہ بھٹو مرحوم کی آخری کابینہ میں وزیر تھے، اپنی ذہانت اور صلاحیت کے باوجود بھٹو اپنا اقتدار نہ بچا سکے۔ انور عزیز چوہدری نے خاکسار کو بتایا کہ جب بھٹو صاحب نے لاہور کے گورنر ہائوس میں اپریل 1977 میں شراب نوشی، جوئے پر پابندی لگائی اور جمعہ کی چھٹی کا اعلان کیا تو اس رات انھوں نے مجھے گورنر ہائوس میں بلایا اور کھانے پر مختلف موضوعات پر باتیں ہوئی پھر بھٹو صاحب مجھے گورنر ہائوس کے لان میں لے آئے، وہ بہت آزردہ تھے اور انھوں نے مجھے کہا کہ انور کاش کہ میں یہ دن دیکھنے کیلئے زندہ نہ ہوتا، ان کا مطلب تھا کہ انھیں مذہبی اپوزیشن نے وہ اقدامات کرنے پر مجبور کیا ہے جو انکے اپنے نظریے سے متصادم تھے۔ بھٹو صاحب کا نعرہ تھا کہ اسلام ہمارا مذہب ہے، سوشل ازم ہماری معیشت ہے اور جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ وہ پاکستان کو آہستہ آہستہ کٹر قسم کے مذہبی رجحانات سے نکال کر لبرل ازم کی طرف لے جانا چاہتے تھے۔ انھوں نے اسی دور میں کراچی میں ایک بہت بڑا کسینو قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جس پر مذہبی طبقات نے ان پر سخت تنقید کی۔ چوہدری صاحب نے مجھے بتایا کہ بھٹو صاحب پاکستان کو رجعت پسند ملک نہیں بنانا چاہتے تھے۔ چنانچہ جس پریس کانفرنس میں انھوں نے جمعہ کی چھٹی کرنے، شراب بیچنے پر پابندی اور گھوڑوں کی ریس کھیلنے پر پابندی لگائی، وہ پریس کانفرنس شاید انکے دل کی آواز نہیں تھی اور چوہدری صاحب نے بتایا کہ لاہور کی اس یادگار ملاقات میں مسٹر بھٹو نے ان کیساتھ طویل گفتگو میں آنیوالے حالات کا ایک بڑا فکر انگیز تجزیہ بھی پیش کیا تھا۔ انور عزیز چوہدری مرحوم سے نوے کی دہائی میں بھی ملاقاتیں اور محفلیں ہوتی رہیں، وہ بہت ہی جہاندیدہ پڑھے لکھے اور Down to Earth سیاست دان تھے۔ مرحوم کی وفات سے پاکستانی سیاست ایک انتہائی پڑھے لکھے تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاست دان سے محروم ہو گئی ہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!