وہ کہتے ہیں کہ بات سے بات آگے بڑھتی ہے ۔ کچھ ایسا ہی ہُوا ۔ وطن عزیز میں بعض صاحبان ثروت کو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق ہوتی ہے اور وہ غریب مستحق اور نادرا گھرانوں سے تعلق رکھنے والی بیٹیوں کی شادی کا بندوبست کرتے ہیں۔ عموماً ایسی شادیاں اجتماعی تقریبات میں ہوتی ہیں۔ جن کا ذرائع ابلاغ میں چرچا بھی ہوتا ہے ۔ ان کی تعداد بعض اوقات بیسیوں اور کبھی کبھی سینکڑوں تک ہوتی ہے۔ اس کار خیر کو ہر سطح پر سراہا جاتا ہے کہ وہ نادار مستحق غریب اور بے وسیلہ والدین جو اپنی بیٹیوں کی شادی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے، انہیں ایسی اجتماعی شادیوں کے اہتمام سے سہارا مل جاتا ہے۔ مناسب جہیز لیکر ان کی بیٹیاں پیا گھر چلی جاتی ہیں ۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ صاحب ثروت لوگ کچھ رقم دے کر جان چھڑا لیتے ہیں ۔ ایسے ہی ایک امیر شخص کے بارے میں یہ بات سامنے آئی کہ اُس نے غریب عورت کی منت سماجت پر اُسے چند ہزار روپے تھما دئیے اور اس رقم میں اضافہ کرنے پر تیار نہ ہُوا ۔ چند روز بعد اس کے ایک کاروباری دوست کے بیٹے کی شادی ہوئی تو گانے اور ناچنے والی عورتوں پر دو لاکھ روپے نچھاور کر دئیے۔ افسوس ہوتا ہے ایسے لوگوں پر کہ وہ غریب اور مستحق خاندانوں کی معمولی رقم سے مدد بھی کرتے ہیں تو محض اپنے نام کی شہرت اور دکھاوے کے لئے کرتے ہیں۔
اس ماحول میں اجتماعی شادیوں کا اہتمام کرنے والوں کا جذبہ بہت غنیمت دکھائی دیتا ہے۔ یہ کارِ خیر انفرادی اور اجتماعی طور پر ہوتا ہے۔ کئی تنظیموں کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرماتا ہے تو احسن طریق سے غریبوں اور مستحق خاندانوں کی بیٹیوں کے ہاتھ پیلے ہوتے رہتے ہیں۔ یہ پہلو انتہائی بہترین اور اللہ پاک کے ہاں مقبول دکھائی دیتا ہے۔ انسان بنیادی طور پر اپنی ذات کے حوالے سے تسکین کا خواہشمند بھی رہتا ہے ۔ اپنی ذات کے لئے وہ بعض معاملات میں بہت بڑھ چڑھ کر اپنی دولت خرچ کرتا ہے ۔ بات چونکہ شادیوں کی ہو رہی ہے تو اسی حوالے سے ہی بات کو آگے بڑھاتے ہیں کہ شادی بیاہ کے موقع پر بہت اعلیٰ سجاوٹ ، بینڈ باجے ، آتش بازی اور تحائف وغیرہ دینے کا فریضہ انجام دینے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ بعض اوقات تو ہوائی فائرنگ کر کے بھی اپنی ذات کی تسکین کی جاتی ہے ۔ ہوائی فائرنگ کی وجہ سے بعض اوقات شادی کی تقریب ماتم اور المیے میں بھی بدل جاتی ہے اسی طرح آتشبازی کی وجہ سے گھروں یا دکانوں وغیرہ میں آگ لگ جاتی ہے۔ جس کے نتیجے میں کافی نقصان بھی ہوتا ہے۔ شادی بیاہ کے موقع پر ذات کی تسکین کی بات ہو رہی ہے تو بارات اور ولیمے کے کھانے کا سلسلہ کئی کئی روز تک جاری رہتا ہے ۔ جب چرچا ہوتا ہے تو اہتمام کرنے والوں کا مقصد پورا ہوجاتا ہے ۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دلہا یا اس کے والدین بیرون ملک سے آئے ہوں تو ڈالر، ریال، درہم ، پونڈ وغیرہ بھی لٹاتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات مردوں اور عورتوں کے سوٹ بھی نچاور کر کے اپنی ذات کی تسکین کی جاتی ہے ۔ کچھ شوقین مزاج موبائل کے ڈبے بھی لٹاتے ہیں۔ تو اس موقع پر بھی دل کے ارمان اسی انداز میں پورے کئے جاتے ہیں۔ یوں ایک تبصرہ یکساں کچھ یوں ہوتا ہے کہ بہت مہنگی شادی ہوئی ہے ۔ ظاہر ہے ، جب معمول کے اخراجات کی بجائے دو تین گنا زیادہ اخراجات ہوں گے تو لوگ چرچا بھی کریں گے ۔
مہنگی شادی کا ذکر ہُوا ہے تو گزشتہ دنوں ایک مہنگی شادی کا بہت چرچا ہُوا ۔ سوشل میڈیا کے علاوہ ٹی وی چینلز اور اخبارات میں اس کی کچھ تفصیل منظر عام پر آئی ۔ بتایا گیا کہ اس شادی پر دو سے تین ارب روپے خرچ ہوئے ۔ ایک نجی کلب کی بلڈنگ اور سبزہ زار وں سے لیکر پارکنگ تک ایک سو بیس روز کے لئے بکنگ کی گئی ۔ سجاوٹ کچھ ایسی کی گئی کہ پورا ایک مہینہ لگ گیا ۔ سارا سٹاف اسی کام میں مصروف رہا ۔ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ایسی اعلیٰ اور قابلِ دید سجاوٹ پہلے کسی شادی کے موقع پر دیکھنے کو نہیں ملی ۔ سجاوٹ وغیرہ کا کام مکمل ہونے کے بعد مختلف حوالوں سے تقریبات کا سلسلہ شروع ہُوا جو دو ماہ تک جاری رہا ۔ یوں تین ماہ سے زیادہ عرصے تک اس شادی کی تقریبات منعقد ہوتی رہیں ۔ وسیع اور اعلیٰ انتظامات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کلب انتظامیہ کو پندرہ کروڑ روپے بطور سروس چارجز ادا کئے گئے جبکہ انتظامی ٹیم ، جو سینکڑوں افراد پر مشتمل تھی اسے دو کروڑ روپے بطور انعام دئیے گئے ۔ بتایا گیا ہے کہ اس مہنگی ترین شادی کا نوٹس لے لیا گیا ہے اور نیب حکام نے انکوائری شروع کر دی ہے۔ ایک شادی پر اس قدر زیادہ اخراجات پر کچھ لوگوں کا تبصرہ یہ بھی ہے کہ اپنے اپنے مقدر اور نصیب کی بات ہے۔
اپنے اپنے نصیب کی بات ہے
Nov 29, 2020