کراچی(کامرس رپورٹر)سائٹ ایسوسی ایشن آف انڈسٹری کے صدر عبدالہادی نے صنعتوں میں ایک ہفتے سے گیس کی شدید قلت پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ گیس پریشر صفر ہونے کی وجہ سے پیداواری سرگرمیاں رک گئی ہیں اور برآمدی آرڈرز کی تکمیل بھی تاخیر کا شکار ہورہی ہے جس سے برآمدی آرڈرز کے منسوخ ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں لہٰذا حکومت سوئی سدرن گیس کو پابند کرے کہ وہ وعدے کے مطابق سائٹ کی صنعتوں کو بلاتعطل مطلوبہ پریشر کے ساتھ گیس کی سپلائی یقینی بنائے تاکہ پیداواری سرگرمیاں مکمل صلاحیت کے ساتھ جاری رکھی جاسکیں اور غیر ملکی خریداروں کو بروقت شپمنٹ ممکن بنائی جاسکے۔عبدالہادی نے ایک بیان میں کہاکہ وزارت پیٹرولیم وتوانائی کے ساتھ متعدد اجلاسوں میں صنعتکاروں سے کہا گیا تھا کہ اگر وہ موسم سرما میں بلاتعطل اور مکمل گیس پریشر کے ساتھ گیس کی سپلائی چاہتے ہیں تو انہیں اگلے5ماہ کے لیے یکم اکتوبر2020سے28فروری2021 تک کی مدت کے لیے گیس کے پرانے نرخوں 786روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کی بجائے نئے نرخوں 930روپے فی ایم ایم بی ٹی یو پر گیس لینا ہوگی جس پر صنعتکاروں نے رضا مندی ظاہر کی تھی اور وزارت پیٹرولیم نے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ سسٹم میں آر ایل این جی مکس کر کے سائٹ کی صنعتکاروں کو مکمل پریشر کے ساتھ بلاکسی تعطل ترجیحی بنیادوں پرگیس سپلائی کی جائے گی۔ان اجلاسوں میں وزیراعظم کے مشیربرائے پیٹرولیم ندیم بابر اور وزیرتوانائی عمر ایوب بھی موجود تھے۔صدر سائٹ ایسوسی ایش نے کہا کہ یہ بات انتہائی تشویش کا باعث ہے کہ زائد نرخوں پر گیس کے حصول پر صنعتکاروں کی جانب سے آمادگی کے باوجود حکومت نے وعدہ خلافی کرتے ہوئے صنعتوں کو مطلوبہ پریشر کے ساتھ گیس فراہمی یقینی نہیں بنائی جو کہ وزیراعظم عمران خان کے صنعتوں کو فروغ دینے کی ویژن کے منافی ہے۔ انہوں نے اس بات پرحیرت کا اظہار کیا کہ سوئی سدرن گیس نے وعدے کے مطابق صنعتوں کو مکمل پریشر اور بلاتعطل گیس کی سپلائی تو ممکن نہیں بنائی البتہ اکتوبر کے گیس بل اضافی نرخوں 930روپے فی ایم ایم بی ٹی یو کے مطابق بل ضرور ارسال کیے جو کہ صنعتوں کے ساتھ زیادتی ہے۔عبدالہادی نے حکومت سے اپیل کی سوئی سدرن گیس کو صنعتوں کو بلاتعطل اور مکمل پریشر کے ساتھ گیس کی سپلائی کا پابند کیا جائے تاکہ صنعتوں کی پیداوار متاثر نہ ہو اور برآمدی شپمنٹ بروقت روانہ کی جاسکیں بصورت دیگر غیر ملکی آرڈرز منسوخ ہونے سے برآمدکنندگان کو خطیر مالی نقصانات کاسامنا کرنا پڑے گااور ملکی برآمدات پر بھی اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔