بھاگوت کی یاوہ گوئی ،بھوٹان بھارت تعلقات کا نیا موڑ  


اس امر سے غالباً سبھی کو آگاہی ہے کہ 29نومبر کو بھارتی پارلیمنٹ کا موسم سرما کا اجلاس شروع ہو رہا ہے اور غالب امکان ہے کہ پہلے ہی روز بھارتی کسانو ں پر لاگو کالے قوانین کو ہٹانے کا بل پیش کر دیا جائے گا اور مودی سرکار کو نا چاہتے ہوئے بھی ان قوانین کو ہٹانا پڑے گا اور یہ بھارت کے لئے  کتنی بڑی ہزیمت ہے اس کا اندازہ لگانے کیلئے کسی کا زیادہ دانشور ہونا بھی ضروری نہیں۔دوسری طرف آنے والے چند دنوں میں ’شاہین باغ ‘کی تحریک دوبارہ شروع ہونے کے واضح شواہد سامنے آرہے ہیں ۔اسی تناظر میں ایک اعتدال پسند بھارتی دانشور کے الفاظ میں ’’سنتے آئے تھے کہ مصیبت کبھی اکیلی نہیں آتی تبھی تو ایک طرف مودی حکومت کو سکھوں اور کسانو ں کے خلاف ہر طرح کا زہر اگلنے کے بعد اپنا تھوکا ہوا چاٹنا پڑ رہا ہے تو دوسری طرف بھوٹان کی سرزمین پر مبینہ چینی تعمیرات نے انڈیا کو تشویش میں مبتلا کردیا  ہے کیوں کہ جن علاقوں میں چین کی تعمیرات کی تصاویر سامنے آئی ہیں یہ علاقے سٹریجٹک طور پر اہم علاقے ڈوکلام کے قریب ہیں۔بھارت کو یہ خوف ہے کہ چین ان علاقوں پر اپنا دعویٰ مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
 یاد رہے کہ چین کی 14 ممالک کے ساتھ 22 ہزار 457 کلومیٹر لمبی سرحد ہے لیکن سرحدی تنازعات صرف انڈیا اور بھوٹان کے ساتھ ہیں۔ ڈوکلام وہی علاقہ ہے جہاں 2017 میں انڈیا اور چین کے مابین سخت کشیدگی پیدا ہو گئی تھی جو کئی مہینوں تک برقرار رہی علاوہ ازیں 2020 میں وادی گلوان میں جھڑپوں کے بعد انڈیا اور چین کے تعلقات کشیدہ ہو چکے ہیں۔ واضح ہو کہ اس جھڑپ میں کرنل سنتوش بابو سمیت 20 انڈین فوجی مارے گئے تھے۔بھوٹان کی چین کے ساتھ 477 کلو میٹر لمبی سرحد ہے اور بھوٹان اس لیے بھی بھارت کے لیے اہم ہے کیونکہ وہ اس علاقے میں بھارت کی ڈھال ہے جہاں ہندوستان کی سلی گوری کوریڈور جسے دفاعی ماہرین چکن نیک (مرغے کی گردن) سے تعبیر کرتے ہیں۔ 
سلی گوری کوریڈور کی لمبائی ساٹھ کلو میٹر اور چوڑائی صرف 22 کلو میٹر ہے۔کیونکہ یہ انڈیا کی شمال مشرقی ریاستوں تک پہنچنے کے لیے اہم راستہ فراہم کرتا ہے اور اگر چین سلی گوری کوریڈور کے قریب آ جائے تو یہ انڈیا کے لیے بجا طور پر شدید تشویش کا باعث  ہے۔کانگریس پارٹی کے ترجمان گوراو ولبھ نے کہا ہے: ’بھوٹان کی سرزمین پر چینی تعمیرات انڈیا کے لیے پریشانی کا سبب ہونی چاہیے  کیونکہ انڈیا نہ صرف خارجہ امور میں بھوٹان کی مشاورت کرتا ہے بلکہ اس کی افواج کی تربیت بھی کرتا ہے۔ ‘ یاد ہے کہ چین اور بھوٹان نے 14 اکتوبر کو سرحدی تنازعات کو حل کرنے کے لیے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے اور چین اور بھوٹان کے مابین سرحدی معاملات پر بات چیت 1984 سے جاری ہے۔
چین اوردہلی کے مابین جاری کشیدگی کے دوران جس چیز نے انڈیا کی نیند اڑائی ہے کہ وہ کہ یہ معاہدہ ڈوکلام پر انڈیا اور چین کی افواج کے درمیان 73 روز تک جاری رہنے والی کشیدگی کے چار سال بعد سامنے آیا ہے۔چین کے ایک سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے پندرہ اکتوبر کے اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ انڈیا دو آزاد ممالک کے درمیان ہونے والے معاہدے پر انگلیاں اٹھا کر اپنی تنگ نظری کا اظہار کر رہا ہے۔ گلوبل ٹائمز نے تب لکھا تھا کہ انڈین ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک چھوٹے اور کمزور ملک کی خود مختاری کو کمزور کر رہا ہے۔مبصرین کے مطابق  بھارت  کے لیے بھوٹان کی اہمیت کی وجہ سے انڈیا کو چین بھوٹان کے تعلقات کو قریب سے دیکھنے کی ضرورت رہے گی۔ہندوستان ٹائمز نے لکھا تھا کہ بھارت  کے لیے بھوٹان کی بہت اہمیت ہے کیونکہ وہ سلی گوری کوریڈور کے قریب ہے اور کوئی ایسا معاہدہ خطے میں انڈیا کے دفاع کو متاثر کر سکتا ہے۔ یہ امر قابل توجہ ہے کہ  چین نے حال ہی میں ایک قومی قانون منظور کیا ہے جس میں چین کے 14 ہمسایہ ممالک سے ملنے والی 22 ہزار کلومیٹر طویل سرحد کی حفاظت اور سکیورٹی کی تفصیلات طے کی گئی ہیں۔چین کے سب سے اعلیٰ قانون ساز ادارے نیشنل پیپلز کانگریس نے 23 اکتوبر کو پہلا قانون منظور کیا تھا جو پہلی جنوری 2022 سے نافد العمل ہو گا۔ یاد رہے کہ  انڈیا نے اس قانون پر اپنے سخت ردعمل میں کہا تھا کہ بھارت  امید کرتا ہے کہ چین اس 'یکطرفہ' قانون کے تحت کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائے گا جس سے ہندوستان  اور چین سرحد کی صورتحال یکطرفہ طور پر بدل جائے۔ گلوبل ٹائمز کے مطابق دہلی سرکار کا دماغی خلل اور قانون کو سمجھے بغیر اس پر ردعمل دونوں ملکوں کے سرحدی مذاکرات کو  مزید پیچھے دھکیل سکتا ہے۔ واضح ہو کہ رواں برس اکتوبر میں چین اور بھوٹان کے مابین معاہدے کے بعد گلوبل ٹائمز میں چینی ماہرین کے ایسے تجزیے سامنے آئے تھے کہ اس معاہدے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھوٹان آزادانہ طور پر اپنے سرحدی معاملات حل کرنا چاہتا ہے اور وہ چینی خطرے کے انڈیا دعوے کو بھی مسترد کرتا ہے۔مبصرین کے مطابق  یہ بات کسے معلوم نہیںکہ پاکستان اور چین کے دوستانہ تعلقات دنیا بھر میں مثالی اہمیت کے حامل ہیں جبکہ دوسری طرف آر ایس ایس اور بی جے پی کے زیر سایہ بھارتی حکمران پاکستان کی بابت جو جارحانہ روش اپنائے ہوئے ہیں اس کی ایک تازہ جھلک چار روز پہلے آرایس ایس  کے سربراہ موہن بھاگوت کا یہ بیان ہے جس میں موصوف نے ایک تقریب کے موقع پر کہا ہے کہ ’’تقسیم ہند کا درد ختم کرنے کا واحد علاج پاکستان کو ختم کرنا ہے ‘‘(خدانخواستہ)۔آر  ایس ایس چیف کی یہ تازہ ترین یاوہ گوئی پر تنقید کیلئے بھی لفظ ڈھونڈ پانا شائد ممکن نہیں البتہ ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز کے ہر خاص و عام کو بھارتی عزائم سے مکمل آگائی ہونی چاہیے ۔

ای پیپر دی نیشن