آج ( 29 نومبر2022 کو) جنرل قمر جاوید باجوہ ریٹائرڈ ہو رہے ہیں ۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے یہ اہم ترین فیصلہ کرنا تھا کہ کون بنے گا نیاسپہ سالار اور وہ کیسا ہونا چاہیے کیونکہ میڈیا اور سوشل میڈیا پھر دیگر دانشور، سیاستدان ان سب کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے ''وہ کہتے ہیں کہ سنو سب کی مگر کرو اپنی''، اس لئے شہباز شریف لندن بھی گئے، پی ڈی ایم سے بھی مذاکرات کیئے اور یہ بات بھی اْن کے ذہن نشین ہو گی کہ اس سے پہلے دو بار نواز شریف چیف آف آرمی سٹاف لگا چکے ہیں اس لئے کہ ہمارے ہاں اس چیز کا تعین نہیں ہے کہ کوئی ادارہ کہاں تک کسی دوسرے ادارے کی ڈومین میں مداخلت کر سکتا ہے اور کہاں سے اس کا دائرہ اختیار ختم ہو جاتا ہے۔ فوج ہماری سرحدوں کی پاسبانی کے ساتھ ساتھ آئینی طور پر مصیبت اور قدرتی آفات میں ہمارے کام آتی ہے۔ علاوہ ازیں بیرون ملک تعلقات میں بھی ہمارے ہاں کچھ نہ کچھ آرمی کا دخل ہوتا ہے جو کہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ البتہ اس سے زیادہ جب فوج مداخلت کرے اور چیف ایگزیکٹو اسے روکے تو اْسے رْک جانا چاہیے۔ اسی طرح سول حکومت کو پاک فوج کے ادارے کو وہی درجہ دینا چاہیے جس کے وہ حقدار ہیں اور سپہ سالار سے گاہے بگاہے مختلف اْمور پر مشاورت بھی بڑی ضروری ہے۔ چنانچہ اس بار میاں شہباز شریف نے سینئر ترین آفیسر لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کو بطور چیف آف آرمی سٹاف منتخب کر لیا۔ حافظ قرآن جنرل عاصم منیر کا تعلق لا کڑتی راولپنڈی سے ہے۔ یہ وہ جنرل ہیں جن کا کوئی آرمی بیک گرائونڈ نہیں ہے اْن کے والد گورنمنٹ ٹیکنیکل سکول کے ہیڈماسٹر تھے اور یہ پہلے آرمی چیف او ٹی ایس ہیں۔ اْنہوں نے آفیسرز ٹریننگ سکول سے ٹریننگ پاسنگ آئوٹ کی۔ اْنہوں نے ملٹری کاکول سے اعزازی شمشیر بھی حاصل کی۔ یہ جو کچھ بھی بنے اپنی انتہائی محنت اور لگن سے بنے۔ اْنہوں نے جنرل قمر جاوید باجوہ کے انڈر نادرن ایریاز میں کام کیا اور وہاں مکمل امن و امان قائم کروایا۔ اْنہیں جب آئی ایس آئی کا چیف بنایا گیا تو ایک سال بعد ہی عمران خان جو کانوں کے کچے تھے اْنہیں حسد رکھنے والی شخصیات نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ پنجاب میں جو کرپشن بزدار دور میں ہو رہی ہے، اسے منظر عام پر عاصم منیر لا رہے ہیں اور ساتھ ہی ٹائلز کی فینسینگ کا معاملہ بھی اْن کے خلاف گھڑ کر اْنہیں آئی ایس آئی سے ہٹا یا گیا اور سابق وزیر اعظم عمران خان نے یہ بیان دیا کہ مجھے سرحد پار سے اْن کے خلاف خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ بہر حال جنرل عاصم منیر کو کور کمانڈر گوجرانوالہ تعینات کر دیا گیا۔ قارئین! ذرا سمجھنے کی کوشش کریں کہ جنرل عاصم منیر کو شہباز شریف نے کیوں چیف آف آرمی سٹاف بنایا۔ اس لئے کہ اْنہوں نے انتہائی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جس طرح اْنہیں آئی ایس آئی سے ہٹایا گیا جن بنیادوں پر اْن کا جائزہ لیا اور جن بنیادوں پر اْن پہ الزام لگائے گئے اْن کی کوئی سرے سے حیثیت ہی نہیں تھی تو انتہائی احتیاط، ہوشمندی اور عقلمندی سے اْنہوں نے سوچا کہ جس شخص کا کوئی آرمی بیک گرائونڈ ہی نہیں اور اس پر کس طرح کے الزامات لگا کر انٹیلی جینس بیورو سے ہٹایا، جو صرف اور صرف اپنی محنت کے بل بوتے پر یہاں تک پہنچا ہے تو اْنہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ 27 نومبر کو ریٹائرڈ ہو جائیں گے تو ملک ایک مایہ ناز آرمی آفیسر سے محروم ہو جائے گا۔ چنانچہ اْنہوں نے بڑی جہاندیدگی سے ماضی کے تلخ تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا۔ جو بہت ہی خوش آئند فیصلہ ہے جس پر کسی کو کوئی اعتراض بھی نہیں ہو سکتا۔ جنرل عاصم منیر نہ صرف پاک فوج کے عظیم ادارے کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کریں گے بلکہ ملک میں آئندہ شفاف الیکشن کروانے میں بھی بہت ممدد و معاون ثابت ہوں گے۔ اْن کا تعلق سیاست کے کسی گروپ سے نہیں ہے، وہ ایک پیشہ وارانہ سپاہی ہیں اور وہ اْنہی اْمور پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے ۔ وزیراعظم شہباز شریف نے یہ بے باک فیصلہ لے کر قوم کو یہ بتا دیا کہ سیاستدان بھی اب فوج کی طرف نہیں دیکھیں ۔ پی ڈی ایم کی تمام پارٹیوں نے ان سے اتفاق بھی کیا، یہ بہت بڑا اعزاز ہے اْن کے لئے کہ سب نے اْن کے ہاتھ مضبوط کیے۔