جس کو آنا ھے آئیں نہیں آنا تو آپکی مرضی’’ اگر اس بائیکاٹ کی تحریک کے پیش نظر سیکیورٹی اور امن عامہ کا بہانہ بنا کر یہ ورلڈ کپ کینسل کر دیا جاتا تو قطر کی بارہ سالہ محنت اور بلینز آف ڈالر ڈوب جاتے۔ مگر اتنا بڑا خطرہ مول لیتے ہوئے یہ چھوٹا سا ملک اپنی اسلامی روایات کی پاسداری کے لئے جس جوانمردی سے دنیا کے بدتہذیب، بے راہ رو اور بدمعاش ٹولے کے سامنے پوری جرات سے کھڑا ہوا یقینا یہ عمل ہر طرح سے لائق تحسین اور قابل داد ھے۔ قطر اپنے ہر عمل سے مسلسل حیران کر رہا ھے یعنی کس خوبصورتی سے کھیلوں کی دنیا کے سب سے بڑے ایونٹ کو دعوت اسلام کا ذریعہ بنا دیا، ڈاکٹر ذاکر نائیک سمیت دنیا بھر سے سینکڑوں علمائے کرام اور سکالرز کو دعوت نامے بھیج کر بلوایا گیا جو کہ میگا ایونٹ کے دوران مختلف زبانوں میں تبلیغ کا فریضہ سرانجام دیں گے ۔ 2000 مقامی علمائے کرام بھی فٹ بال ورلڈ کپ کی ڈیوٹی کریں گے، قارئین
میرے نزدیک ایک اور بیمثال کارنامہ جو قطر نے سر انجام دیا وہ یہ ھے کہ مشہور زمانہ سکالر موٹیویشنل سپیکر ڈاکٹر ذاکر نائیک جن پر یورپ، آسٹریلیا، کینیڈا، امریکہ جرمنی برازیل انڈیا سمیت کئی اور ممالک میں داخلے پر پابندی ھے، قطر نے اللہ کے حکم سے ان تمام مخالف ممالک کو انکے گرد لا کر اکٹھا کردیا اور سٹیڈیم میں میچ کے وقفے اور بعد کے وقت میں وہ اپنی تقاریر کرسکیں گے، اس کے علاوہ ملک بھر کی مساجد کے مؤذن تبدیل کرکے دلکش مترنم آوازوں والے مؤذن مقرر کر دئیے گئے۔ تمام مساجد کو اسلامی میوزیم کی طرز پر پیش کیا جائے گا جہاں کسی بھی وقت کوئی بھی فرد آ کر معلومات لے سکے گا ۔ ملک بھر میں قرآنی آیات ۔ احادیث اور تاریخ اسلامی کو نمایاں کرکے فلیکس اور بل بورڈز لگائے گئے ہیں ۔ قرآن مجید کے تراجم ۔ مختلف زبانوں میں اسلامی تاریخ و سیرت کی کتب بانٹی جا رہی ہیں ۔ ہر اسٹیڈیم میں نماز کی نمایاں جگہ مختص کی گئی ھے- علامہ صاحب نے کیا خوب کہا تھا-
اِس دور کی ظلمت میں ہر قلبِ پریشاں کو
وہ داغِ محبت دے، جو چاند کو شرما دے
بھٹکے ہوئے آہو کو، پھر سوئے حرم لے چل
اِس شہر کے خوگر کو پھر وسعتِ صحرا دے
(ختم شد)