انٹرنیشنل ڈیفنس ایگزی بیشن اینڈ سیمینار (آئیڈیاز) کی ایک بڑی علاقائی اختتامی تقریب کا اہتمام ڈیفنس ایکسپورٹ پروموشن آرگنائزیشن کی جانب سے کراچی ایکسپو سینٹر میں دفاعی ہتھیاروں کی نمائش آئیڈیاز 2022کے نام سے ہوئی۔ آئیڈیاز 2022ہماری دفاعی مصنوعات کا شوکیس تھا جو عالمی سطح پر ہماری صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہےاور خطے میں سیکیوریٹی سے متعلق ہمارے نکتہ نظر کو ایک عالمی پلیٹ فارم کے ذریعے دنیا کے سامنے موثر انداز میں پیش کرتا ہے۔ دفاعی نمائش آئیڈیاز 2022 کا موضوع ‘امن کیلئے ہتھیار’ تھا جو پاکستان کی امن و سلامتی کی خواہش کا مظہر ہے۔ ایکسپو سینٹر کراچی میں منعقدہ دفاعی نمائش کے انعقاد کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف نے درست ٹویٹ کیاکہ یہ نمائش عالمی دفاعی مارکیٹ میں پاکستان کی تیز رفتار پیش رفت اجاگر کرتی ہے۔ نمائش میں 64 ملکوں کے 285 غیرملکی دفاعی مندوبین نے شرکت کی جس سے اس نمائش کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ نمائش میں آسٹریلیا، رومانیہ اور ہنگری پہلی مرتبہ شریک ہیں۔ نمائش میں 30سے زائد مفاہمت کی یادداشتوں پر بھی دستخط کیے گئے۔ غیرملکی مندوبین اور غیرملکی نمائش کنندگان نے نمائش کے دوران پرسکون طریقے سے قیام کیا جس سے دنیا کو یہ پیغام ملا ہے کہ پاکستان ایک پرامن ملک ہے۔ پاکستان دفاعی پیداوار میں کئی دہائیوں سے مصروف عمل ہے۔ ملکی سطح پر تیارکی جانے والی ہماری نمایاں اوراہم دفاعی مصنوعات آئیڈیاز 2022ءمیں پیش کی گئیں جن میں جنگی ٹینک الخالد، الضرار، جے ایف 17تھنڈر جنگی طیارے، آرمڈ پرسنل کیریئرز اورمسلح ڈرونز شامل ہیں۔عرصہ دراز سے پاکستان کے پاس صرف ایسے ڈرون تھے جو فقط نگرانی کی غرض سے استعمال ہوتے تھے مگر اب پاکستان کی اسلحہ ساز کمپنیوں نے آئیڈیاز 2022ءمیں پہلی بار جنگی مقاصد کیلئے استعمال ہونےوالے ڈرونز پیش کیے ہیں۔پاکستان میں لوگوں نے ڈرونز کا نام اس وقت س±نا جب دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے دوران امریکی ڈرونز نے پاکستانی سرحدی حدود میں مطلوب شدت پسندوں کو نشانہ بنانا شروع کیا۔ پاکستان نے ڈرون ٹیکنالوجی میں باضابطہ پر پہلا قدم سرویلنس ڈرونز بنانے کے میدان میں رکھا تھا اور نگرانی کی غرض سے استعمال ہونے والے یہ ڈرونز ماضی میں ہونے والی آئیڈیاز نمائش میں نظر آتے تھے۔پاکستان کا اس وقت فلیگ شپ ڈرون ’شہپر ٹو‘ ہے جو پاکستان آرمی، نیوی، ایئر فورس کی فلیٹ میں شامل ہو چکا ہے اور حکومت اس نمائش سے اب اسکی دوسرے ملکوں کو برآمد کی خواہشمند ہے۔شہپر ٹوایک ہزار کلومیٹر تک پرواز کر کے ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے اور یہ سیٹلائٹ سے رابطہ کاری کر سکتا ہے، دن ہو یا رات یہ کسی بھی آپریشن میں کارآمد ہے اور یہ اپنے ہدف کو لیزر بیم سے لاک کر کے اس کو میزائل کی مدد سے تباہ کر سکتا ہے۔ شہپر ٹو‘ کی حد رفتار 120 ناٹس ہے جبکہ ٹیک آف سپیڈ 80 ناٹس سے لے کر 85 ناٹس ہے۔ اسکی کروزرفتار 80 سے 80 ناٹس ہوتی ہے، اسکا ریڈیس تقریباً 1050 کلومیٹر اور ڈیٹا لنک رینج 300 کلومیٹر ہے، یہ جنگی ڈرون دوران پرواز انجن دوبارہ سٹارٹ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔گلوبل انڈسٹریل اینڈ ڈیفنس سلوشنز ڈرونز کے دیگر منصوعات میں شاہ پر ون، عقاب ڈرون سیریز بھی شامل ہے، جو مختلف فاصلوں، رفتار اور اسلحہ لےکر پرواز کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔پاکستان آرڈیننس فیکٹری کی جانب سے پہلے ’ابابیل‘ کے نام سے سرویلنس ڈرونز بنائے گئے تھے اب انھیں بھی جنگی مقاصد کیلئے مسلح کیا گیا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ملکوں کے استحکام میں جہاں معیشت کی بہتری اہم عنصر کی حیثیت رکھتی ہے وہاں دفاعی طور پر موثر انتظامات کی اپنی اہمیت ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں کہ کویت جو دنیا کے مالدار ترین ملکوں میں شمار ہوتا ہے، عراقی جارحیت کا ایک دن بھی مقابلہ نہ کر سکا اور اسکا مقبوضہ ملک بن گیا۔ عالمی برادری کے ردعمل خصوصاً امریکہ کی قیادت میں اتحادی ملکوں کی کارروائی کے نتیجے میں وہاں سے عراقی قبضہ ختم ہو سکا۔اسی طرح اسرائیل کے مقابل دیگر عرب ممالک فلسطین، لبنان، شام، مصر،اردن، عراق، لیبیاکی مثالیں سامنے ہیں کہ کیسے اسرائیل جیسے ایک چھوٹے ملک نے اپنی عسکری قوت کے بل پر اپنے کئی گنا بڑے دیگر عرب ممالک کو 1967اور پھر 1973 کی جنگوں کے دوران چند دنوں میں ہی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔پاکستان وہ ملک ہے جسے اپنے وجود میں آنے کے وقت سے ایسے پڑوسی کی ریشہ دوانیوں اور اسلحہ جمع کرنے کے جنون کا سامنا ہے جو مملکت خداداد کا وجود مٹانے کے کھلے عزائم رکھتا ہے۔ اپنی بقا کے ضرورتوں اور طاقت کا توازن رکھنے کی کاوشوں کے ضمن میں اسلام آباد کو بالاخر ایٹمی طاقت بننا پڑا۔ ایٹمی اثاثوں کی حیثیت ایسی ڈھال یا ڈیٹرنس کی ہے جو نہ صرف پاکستان کی بقا کا تقاضا ہے بلکہ علاقائی امن اور خطے کے دیگر ملکوں کو توسیع پسندی اور علاقائی بدمعاشی کا شوق رکھنے والے ملک سے بچانے میں بھی معاون ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ مذکورہ نمائش کی کامیابی پاکستان اور دیگر ممالک کے درمیان مختلف میدانوں میں تجارتی اور دوستانہ روابط مزید بڑھانے کا ذریعہ بنے گی۔