ہم جنونی ہو گئے ہیں۔ ہم انتہا پسندی کی بلندیوں کو چھونے لگے ہیں اب ہم ایک جتھا ہیں۔ اب ہم ایک گروہ ہیں، اب ہم ایک بے ہنگم ہجوم ہیں۔ ہمارا مخالف لیڈر چاہے اچھے کام کر رہا ہو، ہم اس کی تعریف نہیں کرتے۔ ہمارا اپنا لیڈرچاہے غلط راہوں کا مسافر ہو، ہم اسے ٹوکتے نہیں ہیں۔ ہم جس کو لیڈر مان لیتے ہیں اس کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملاتے ہیں۔ اس کے قدموں کے نشانات پہ اپنا ماتھا ٹیکتے ہیں ہمارا لیڈر اگر جھوٹ بول رہا ہو تو یہ ہمارے لئے باعث ندامت نہیں ہوتا۔ ہم وہ لوگ ہیں جو اس جھوٹ کو قریہ قریہ پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ اب ہم دھڑے باز ہو گئے ہیں۔ ہم نے جھوٹ، بہتان، نفرت اور گالی کی جو فصل بوئی تھی، اب وہ پک گئی ہے۔ اب ہم گروہوں کی شکل میں اسے کاٹ رہے ہیں۔ ہمارا مخالف چاہے سچ ہی بول رہا ہو، جانے کیوں، وہ ہمیں جھوٹ ہی لگتا ہے۔ عمران خان پہ فائرنگ ہوئی تھی۔ وہ زخمی ہو کر ہسپتال چلے گئے تھے۔ لیکن دوسرے گروپ کے لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ ایک ڈھونگ ہے، یہ ایک ناٹک ہے۔ کپتان نے گولیوں کے نشان بھی دکھا دیئے ہیں لیکن ایک طبقہ پھر بھی موجود ہے جو ان کی بات ماننے سے قاصر ہے۔
پرانے وقت کتنے سہانے ہوا کرتے تھے۔ لوگ دل کے پھپھولے اور سینے کے نہاں زخم بھی دکھا دیا کرتے تھے۔ حیرت ہے کہ تب یقین بھی کر لیا جاتا تھا، لیکن اب کے وقتوں میں گولیوں کے نشانات کو بھی پلاسٹک سرجری کا کمال گردانا جاتا ہے۔ ہم اس دور میں زندہ ہیں جس میں تمدن اور اخلاقیات کا جنازہ اٹھ گیا ہے۔ ہماری روایات ہماری تہذیب اور ہمارا کلچر تباہ و برباد ہو گیا ہے۔
مجھے ماضی قریب کا ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ عمران خان سٹیج سے گر پڑے تھے۔ انکے بڑے مخالف میاں نواز شریف بیمار پرسی کیلئے ہسپتال پہنچ گئے تھے، لیکن آج وہی عمران خان دوبارہ ہسپتال گئے ہیں تو شہباز شریف یا پھر مخالفین میں سے کوئی بھی سرکردہ لیڈر ہسپتال میں عیادت کیلئے نہیں پہنچا۔ ایک دہائی سے بھی کم کے عرصہ میں ہم اتنے بے حس کیوں ہو گئے ہیں۔ ہماری روایات اور رہن سہن کا طریقہ اتنی جلد ہی کیوں بدل گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ تو ہمارا دین تھا۔ ہمارے پیارے نبی فرمایا کرتے تھے، تیمار داری کیلئے آنے والا جب بیمار کے پاس بیٹھا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ ان کیلئے جنت میں باغ لگاتے رہو۔ پوچھنا یہ تھا کہ اب کوئی ہم میں سے جنت کے باغات کا چاہنے والا کیوں نہیں رہا۔
ہمیں غلط روایات اور موجودہ مسائل کی نشاندہی ہی نہیں کرنی بلکہ ان کی بیخ کنی بھی کرنی ہے، وہ سیانے لوگ جو چلے گئے ہیں، کہا کرتے تھے، ”نئی بنیادیں وہی لوگ رکھ سکتے ہیں جو اس راز سے واقف ہوں کہ پرانی بنیادیں کیوں بیٹھ گئیں۔ ملک خداداد میں پرانی بنیادیں کیوں بیٹھ گئیں۔ ملک خداداد میں پرانی بنیادیں اس روز بیٹھی تھیں جب کلثوم نواز شریف لندن کے ہسپتال کے آئی سی یو میں داخل تھیں۔ پی ٹی آئی کے پلیٹ فارم سے اسے ڈرامہ کہا جا رہا تھا۔ کلثوم نواز شریف کی بیماری کو فریب اور جھوٹ کے پلندے سے تعبیر کیا جا رہا تھا۔ جب وہ وینٹی لیٹر پہ قریب المرگ تھی تو اس کی تیمار داری کی بجائے ہسپتال کے اندر داخل ہو کر ویڈیو بنانے کی کوشش کی گئی۔ وارثوں کو پرسہ دینے کی بجائے ان کے زخموں پہ نمک پاشی کی جاتی رہی۔ کلثوم نواز شریف کی بیماری کو جھوٹ ثابت کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چل رہے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ اس ملک کی سابقہ خاتون اول کو اپنی بیماری ثابت کرنے کیلئے مرنا پڑا۔ ہم وہ لوگ ہیں جن سے روحیں بھی خفا ہیں عمران خان کا فرض تھا کہ بطور پارٹی لیڈر اپنے سرکردہ رہنماﺅں اور کارکنوں کو روکتے۔ اس بدبو دار کلچر کی مذمت کرتے۔ وہ خاموش رہے۔ جب مدینہ کی پاک گلیوں میں پی ٹی آئی کے ورکروں نے اپنے مخالفین پہ طنزو تشنیع کے تیر چلائے۔ نبی کے مہمانوں کو ذلیل و خوار کرنے کی تگ و دو کی تھی۔ سوشل میڈیا پر ایک آگ لگی رہی لیکن پارٹی کا سربراہ خاموش رہا۔ اس نئی قبیح حرکت کی فوری مذمت کرنے کی بجائے کچھ روز بعد کہا گیا، ”یہ لوگ جہاں بھی جائیں گے ان کے ساتھ ایسا ہی ہو گا“۔ وہ لوگ جوآپ کے نظریات اور آپ کے طبقہ فکر سے مطابقت نہیں رکھتے ان سے انسان ہونے کا حق تو نہ چھینا جائے۔ آپ نے بھوک اور افلاس سے نبرد آزما لوگوں کو معاشی طور پر مزید کمزور کر کے تشدد پسند بنا دیا ہے۔ انہیں نفرت اور گالی سکھا دی ہے۔ مزدور کو سرمایہ دار کے سامنے کھڑا کر دیا گیا ہے۔آزاد ملک میں ہم کوئی غلام کا نعرہ لگا کر بڑوں کو چھوٹوں سے گالیاں نکلوا کرفخر کا اظہار کیا گیا ہے۔ اب کے کونسا معزز شخص ہے جسے گالی نہیں دی گئی۔ فرد کی غلطی سے ان کے ذاتی نقصان کا احتمال ہوتا ہے لیکن لیڈر کی غلطی تو قوموں کو ڈبو دیا کرتی ہے۔ جس روز لوگوں نے کپتان کے زخموں کو ماننے سے انکار کیا تھا، اس روز مجھے یقین ہو گیا تھا ہم بحیثیت قوم ڈوب گئے ہیں۔ ہم معیشت کی بدحالی کیساتھ اخلاقی دیوالیہ پن کا بھی شکار ہو گئے ہیں۔