آزاد کشمیر کے بلدیاتی الیکشن یا مسلم کانفرنس کی تدفین
سیاسی اختلافات اپنی جگہ مگر یہ المیہ کیا کم ہے کہ آزاد کشمیر کے قیام کے بعد یا اس سے پہلے وہاں تشکیل پانے والی آزاد کشمیر کی اپنی نمائندہ جماعتیں جن کا خمیر آزاد کشمیر سے ہی اٹھا تھا۔ ان میں مسلم کانفرنس اور لبریشن لیگ نمایاں تھیں‘ انکے نام سے نئی نسل واقف نہیں۔ قائد اعظم کے سیکرٹری اور ممتاز کشمیری رہنما آزاد کشمیر کے سابق صدر کے ایچ خورشید کی جماعت لبریشن لیگ ان کی وفات کے بعد آہستہ آہستہ ختم ہوئی۔ گرچہ مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان کی 12 میں سے چھ نشستوں پر اسے کامیابی ملتی رہی۔ مگر اب اس کا نام بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ اس کے مقابلے میں ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا مقبول عام نعرہ لگانے والی جماعت مسلم کانفرنس کی تو کہانی ہی عجیب ہے۔ ہر پاکستانی حکمران نے مسلم کانفرنس کے رہنما سردار عبدالقیوم کی سرپرستی کی وہ کئی بار آزاد کشمیر کے صدر بنے سچ کہیں تو وہ آزاد کشمیر کو اپنی ذاتی جاگیر سمجھتے تھے۔ ضیا الحق نے تو انہیں مرشد کہہ کر بہت بڑا بنا دیاتھا۔ مگر ان کے انتقال کے بعد ان کے فرزند عتیق احمد خان کو پدرم سلطان بود کے فلسفے کے تحت جب پارٹی کی قیادت ملی تو وہ یہ مقبولیت سنبھال نہ سکے۔ ان کی سیاست جب مفادات کے گرد گھومنے لگی تو دیرینہ ہمدم ساتھ چھوڑ گئے۔ اس عرصہ میں پاکستان پیپلز پارٹی آزاد کشمیر، پاکستان مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر اور تحریک انصاف آزاد کشمیر نے نہایت سرعت کے ساتھ اپنی حکومتوں کی مدد سے آزاد کشمیر کی سیاست میں جگہ بنا لی اور یوں آزاد کشمیر کی اپنی سیاسی جماعتیں اقتدار کی دوڑ سے یوں باہر ہوئیں گویا وہ کبھی تھی ہی نہیں کہ اب بلدیاتی الیکشن میں بھی ان کی موجودگی محدب عدسہ لے کر ڈھونڈنی پڑے گی۔ افسوس کی بات ہے کہ آزاد کشمیر کی اپنی شناخت رکھنے والی یہ جماعتیں غتربود ہو رہی ہیں اسکے برعکس مقبوضہ کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور عوامی مجلس عمل، پی ڈی پی جیسی جماعتیں ابھی تک زندہ و توانا ہیں اور کام کررہی ہیں۔
٭٭٭٭٭
جرمنی میں مچھر بھگانے والی انگوٹھی بن گئی
یہ ایک معمولی سا مچھر دیکھ لیں کس طرح ہمیں تگنی کا ناچ نچاتا ہے۔ صبح ہو یا شام دن ہو یا رات جب چاہے ہمارے کان کے پاس آ کر اپنا منحوس راگ سناتا ہے۔ لاکھ بھگائیں مگر یہ باز نہیں آتا۔ انسانی حیات اپنے آغاز سے ہی اس معمولی سے مچھر کی وجہ سے ملیریا جیسی آفت سے دوچار ہے جو آج بھی ہر سال لاکھوں افراد کی جان لیتا ہے۔ مچھر دانیوں سے لے کر مچھر بھگائو کریمیں، لوشن، جلانے والی ٹکیاں اور کوائل یا خوشبودار سپرے بھی اس کے خاتمے میں موثر ثابت نہیں ہو رہے۔ یہ عارضی فرار کے بعد پھر آ کر سر پر مسلط ہوتا ہے۔ ہماری راتوں کی نیند خراب کرتا ہے۔ اب تو ملیریا کے ساتھ ساتھ ڈینگی کی شکل میں بھی ایک عذاب مسلط ہے۔ دنیا بھر میں لاکھوں افراد ملیریا کے علاوہ اب ڈینگی کی وجہ سے بھی لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ اس سے بچائو کے لیے بھی طرح طرح کے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ مگر یہ ہر سال اسی مچھر کی مہربانی سے دوبارہ آن دھمکتا ہے۔ اب جرمنی کے ماہرین نے اس مچھر گردی سے نمٹنے کے لیے ایک چھلا (انگوٹھی) تیار کیا ہے جو پہنا جائے تو مچھر بھگانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اس چھلے کی وجہ سے مچھر انسان کے قریب نہیں پھٹکتا۔ اس لحاظ سے یہ ایک جادوئی انگوٹھی کہلا سکتی ہے جس کے اندر ماحول دوست دوا بھری ہوتی ہے جس کی بدولت مچھر انگوٹھی پہننے والے شخص کے قریب نہیں آتا یوں وہ اس موذی مچھر کے کاٹنے سے محفوظ رہتا ہے۔
٭٭٭٭٭
صوبائی اسمبلیوں سے عمران خان کا مستعفی ہونے کا اعلان
سب سے پہلے تو ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ خان صاحب چوروں کی ڈاکوئوں کی حکومت گرانے کا دعویٰ لے کر نکلے تھے مگر یہ کیا ہو گیا کہ وہ خود اپنی ہی حکومتیں گرانے پر آگئے۔ اس پر ایک پرانا مقبول فلمی گیت یاد آ رہا ہے جس میں کچھ ایسی ہی صورتحال کا ذکر ہے۔
جو شمع جلانے آئے تھے
وہ شمع بجھا کر چلے گئے
نجانے کیوں لگتا ہے عمران خان کی مایوسی اب ان کے بیانات سے نکل کر ان کے اقدامات تک آن پہنچی ہے۔ حالانکہ وہ خود کہتے تھے کہ اچھا کھلاڑی آخری گیند تک لڑتا ہے مگر وہ تو بہت پہلے ہی ہمت ہار گئے ہیں۔ میچ مقررہ اووروں سے پہلے ہی میدان چھوڑنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس سے تو ان کی کپتانی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ان پر سوالات اٹھ سکتے ہیں۔ اگرچہ ان کی اپنی پارٹی پر گرفت مضبوط ہے مگر اختلافی موقف رکھنے والے بھی چپ نہیں رہ سکتے پہلے بھی بہت سے رہنما اسی لئے پارٹی سے نکالے جا چکے ہیں۔ بے شک انکے اعلان سے سیاست میں طوفان اٹھتا نظر آرہا ہے مگر اس طرح وہ آنیوالے الیکشن میں اپنے لئے بھی پریشانیاں پیدا کر رہے ہیں۔ خیبر پی کے اور پنجاب میں جو نئی حکومتیں آئیں گی وہاں سے پی ٹی آئی والوں کوحاصل رعاتیں شاید نہ مل سکیں۔ یہ بات پرویز الٰہی اور محمود خان اپنے قائد عمران خان سے زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ جبھی تو اختیار ولی خان نے دلچسپ اور ذومعنی جملہ کہا ہے کہ ’’محمود خان سے تو بادام نہیں ٹوٹتا وہ اسمبلی کیا توڑیں گے‘‘۔ پرویز الٰہی بھی گرچہ اسمبلی توڑنے پر تیار ہیں مگر اندر سے وہ بھی تحفظات رکھتے ہیں۔ مگر اس کا مطلب کوئی یہ نہ لے کہ سب خیریت ہے۔ حالات دگرگوں ہیں اور انارکی پھیلنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
پنجاب میں بچے اور بچیوں کے اغوا زیادتی اور قتل کی وارداتیں بڑھنے لگیں
سچ کہیں تو پنجاب ہی نہیں خیبر پی کے اور سندھ میں بھی ایسے اندوہناک واقعات بڑھ گئے ہیں۔ کیا اس میں والدین کی غفلت کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے جو اپنے کم عمر بچوں کو خواہ لڑکا ہو لڑکی گھر سے باہر کھیلنے یا سودا سلف لانے کی اجازت دیتے ہیں مگر ان پر نظر نہیں رکھتے کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔ کتنی دیر سے باہر ہیں۔ اس طرح تو اہلِ محلہ بھی ذمہ دار ہوں گے کہ وہ آس پڑوس کے بچوں پر نظر کیوں نہیں رکھتے۔ پہلے یہ بات عام تھی اسی لیے اغوا، زیادتی اور قتل کی وارداتیں بھی کم تھیں۔ اب موبائل اور انٹرنیٹ کا دور ہے جس کی وجہ سے فحش مواد نوجوان بچوں کی پہنچ سے دور نہیں۔ اسی طرح جذباتی ہیجان کی وجہ سے کیا نوجوان کیا جوان اور کیا اڈھیر عمر کے لوگ۔ سب فحاشی کے سمندر میں بہہ جاتے ہیں۔ بچے چونکہ آسان شکار ہوتے ہیں اس لیے وہ نشانہ بن جاتے ہیں۔ اس مسئلے کا آسان حل یہی ہے کہ ملک میں موجود قانون کو سختی سے نافذ کیا جائے اور ایسی حرکت میں ملوث افراد کو کسی صورت معاف نہ کیا جائے۔ فحش مواد کو کنٹرول کیا جائے۔ والدین اور اہلِ محلہ بچوں پر کڑی نظر رکھیں۔ کسی اجنبی کو یا اس کے ساتھ بچے یا بچی کو دیکھ کر پوچھ گچھ کریں ۔جو مقدمات درج ہوتے ہیں و ہ شاید چند ہی ہوتے ہیں۔ مگر پورے ملک میں روزانہ ایسے بلامبالغہ سینکڑوں واقعات ہو رہے ہیں جن پر قابو پانا بے حد ضروری ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں جہاں سب مسلمان رہتے ہیں ایسے گھنائونے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ اب پولیس اور عدالتوں کو بھی اس طرف سے نرمی کی پالیسی چھوڑنا ہو گی۔ معاشرے میں قانون اور انصاف کی عملداری کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے۔ ورنہ یہ کم سن پھول اور کلیاں یونہی مسل کر کسی خالی پلاٹ کسی کوڑے کے ڈھیر یا کسی ویران جگہ پر پھینکی جاتی رہیں گی۔