مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے ترکیہ سمیت  دوست ممالک سے مدد لینی چاہیے

Nov 29, 2022


ترکیہ (سابقہ ترکی) کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو پاکستان کے ایسے دوست ہیں جن پر پاکستان ہرطرح کی صورتحال میں انحصار اور اعتماد کرسکتا ہے۔ مختلف مواقع پر ترکیہ نے پاکستان کا ساتھ دے کر یہ ثابت کیا کہ وہ واقعی پاکستان کا مخلص دوست ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کئی ایسی جگہوں پر بھی ترکیہ نے پاکستان کا ساتھ دیا جہاں کوئی بھی دوسرا ملک پاکستان کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔ اس کی ایک واضح مثال فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کا چند برس پہلے ہونے والا وہ اجلاس ہے جس میں پاکستان کی حمایت میں صرف ایک ووٹ آیا تھا اور وہ ترکیہ کا تھا۔ علاوہ ازیں، دنیا میں جو طاقتور اور بے باک مسلم ممالک اپنا ایک منفرد تشخص رکھتے ہیں ترکیہ ان میں سے ایک ہے۔ ان تمام اسباب کی بنا پر پاکستان اور ترکیہ فطری طور پر ایک دوسرے کے حلیف ہیں اور گزشتہ ساڑھے سات دہائیاں ان کے مخلصانہ تعلقات کی گواہ ہیں۔
ان تعلقات کی بنیاد پر پاکستان ترکیہ سے بہت کچھ سیکھ بھی سکتا ہے اور کئی حوالے سے اس سے تعاون بھی لے سکتا ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم محمد شہباز شریف کے ترک صدر رجب طیب اردگان سے تعلقات بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ اپنے حالیہ دورۂ ترکیہ کے موقع پر شہباز شریف نے پاک ترکیہ تعلقات کو مثالی قرار دیتے ہوئے کہا کہ مشترکہ چیلنجز اور ابھرتے ہوئے خطرات کا سامنا کرتے ہوئے پاکستان اور ترکیہ کو مشترکہ تحقیق اور وسائل کو یکجا کر کے گہری شراکت داری کے ذریعے مل کر کام کرنا چاہیے۔ ترک خبر رساں ادارے اناطولیہ ایجنسی کے ساتھ اپنے ایک انٹرویو شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ہمارے تاریخی تعلقات کی مضبوطی مشترکہ مذہبی، ثقافتی اور لسانی روابط پر مبنی ہیں اور یہ روابط دونوں طرف سے سیاسی تبدیلیوں سے بالاتر ہیں۔ وزیراعظم نے ترک دفاعی صنعت کو سراہتے ہوئے کہا کہ ترکیہ نے صدر اردگان کی قیادت میں شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں اور پچھلی دو دہائیوں میں مشکلات اور چیلنجز سب کو شکست دی ہے۔ 
مسئلہ کشمیر پر حمایت کے لیے ترکیہ کی حمایت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ نے جموں و کشمیر اور شمالی قبرص پر اصولی موقف رکھتے ہوئے عالمی فورمز پر ہمیشہ ایک دوسرے کے موقف کی حمایت کی ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل کے بغیر خطے میں دیرپا امن قائم نہیں کیا جا سکتا۔ تمام ممالک کے ساتھ باہمی احترام اور مسائل کے پر امن حل پر مبنی تعمیری روابط سے پورے خطہ میں امن، سلامتی اور ترقی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہم بھارت سمیت تمام پڑوسیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں تاہم تجارتی تعلقات کی بحالی سمیت تعلقات کو مکمل معمول پر لانے کے لیے بھارت کو 5 اگست 2019ء کے ان اقدامات کو واپس لینا ہوگا جن کے ذریعے نئی دہلی نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی محدود خود مختاری کو منسوخ کر دیا تھا۔ شہباز شریف نے کہا کہ بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں اپنی ریاستی دہشت گردی ختم کرنی چاہیے اور اپنے غیر قانونی قبضے کو برقرار رکھنے کے لیے مقبوضہ علاقے میں آبادیاتی تبدیلیوں کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔
وزیراعظم کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق جموں و کشمیر تنازعہ کے منصفانہ حل کے بغیر پائیدار امن حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس با ت کا احساس بین الاقوامی اور عالمی اداروں کو بھی ہونا چاہیے کہ پاکستان اور بھارت دونوں جوہری قوت کے حامل ملک ہیں اور ان کے درمیان کسی بھی حوالے سے کشیدگی اگر حد سے بڑھتی ہے تو وہ نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کے نہایت ناخوشگوار مسائل کاباعث بن سکتی ہے۔ شہباز شریف یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں5 اگست 2019 کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات اور اس کے بعد کے اقدامات نے ماحول کو مزید خراب کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ بامعنی اور بامقصد رابطہ کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کی ذمہ داری بھارت پر ہی عائد ہوتی ہے۔
پاکستان کو ترکیہ جیسے دوست ممالک کو ساتھ ملا کر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور ایسے ہی دیگر اہم پلیٹ فارمز پر مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے مسلسل بات کرنی چاہیے تاکہ دنیا کو یہ احساس دلایا جاسکے کہ مسلم آبادی کی اکثریت رکھنے والے یہ علاقے جن مسائل کا شکار ہیں وہ اس وقت تو صرف مسلمانوں کے مسائل دکھائی دے رہے ہیں لیکن اگر ان کی وجہ سے کوئی بڑا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو کل دنیا کی تمام آبادی ان مسائل کی قیمت ادا کررہی ہوگی۔ اس سلسلے میں حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے مابین محض ایک علاقائی تنازعہ بنا کر پیش نہ کرے بلکہ کشمیری قوم کی آزادی کے حقیقی مسئلے کو بھی پوری طرح اجاگر کرے تاکہ دنیا کو یہ احساس ہو کہ یہ زمین کا جھگڑا نہیں بلکہ جیتے جاگتے انسانوں کے بنیادی حقوق کا مسئلہ ہے جنھیں بھارت گزشتہ پون صدی سے سلب کیے ہوئے ہے۔

مزیدخبریں