سابق وزیر اعظم عمران خان کا لانگ مارچ تو نئے انتخابات کی تاریخ لینے ، آرمی چیف کا تقرر رکوانے یا اپنی مرضی کے آرمی چیف کا تقرر کرانے اور اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں موجودہ ’’امپورٹڈ‘‘ حکومت کا دھڑن تختہ کرانے کا تھا۔ گزشتہ ماہ -28 اکتوبر کو لاہور سے شروع ہونے والا اور دانستہ طور پر رینگنے والی رفتار کے ساتھ آگے بڑھایا جانے والا یہ لانگ مارچ -26 نومبر کو راولپنڈی پہنچا جہاں عمران خان نے جلسے اور دھرنے کے بعد اسلام آباد کی جانب بڑھنے کا اعلان کر رکھا تھا۔ یہ لانگ مارچ معروف اینکر ارشد شریف کے خون سے تقویت حاصل کر کے اچانک شروع کیا گیا اور چار پانچ لاشیں گراتا ہوا ایک ہفتے بعد وزیر آباد پہنچا تو وہاں کسی انفرادی فعل یا پہلے سے طے شدہ کسی منصوبہ بندی کے تحت عمران خان کے کنٹینر پر فائرنگ کا واقعہ رونما ہو گیا۔ جس میں عمران خان اور ان کے بعض ساتھی زخمی ہوئے جبکہ ایک اور شہادت اس لانگ مارچ کے حصے میں آ گئی اور پھر یہ لانگ مارچ دو روزہ التواء کی زد میں آ کر عمران خان کی قیادت کے بغیر دوبارہ اسلام آباد کی جانب بڑھنے لگا۔
لانگ مارچ کے وزیر آباد سے راولپنڈی تک کے تقریباً دو ہفتے کے سفر کے دوران عمران خان لاہور سے بذریعہ ویڈیو لنک خطاب کرتے، اداروں کو رگڑا دیتے ہوئے اپنے ٹائیگرز کے دل گرماتے رہے اور انہیں حقیقی آزادی کا سورج طلوع ہونے کی آس لگاتے رہے جبکہ اس لانگ مارچ کے اپنی منزل تک پہنچنے سے دو روز پہلے ہی وزیر اعظم شہباز شریف نے جی ایچ کیو کی جانب سے بھجوائی گئی سنیارٹی لسٹ پر اپنے حکومتی اتحادیوں سے مشاورت کر کے اس لسٹ میں پہلے اور دوسرے نمبر پر موجود لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر اور لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد کے بالترتیب چیف آف آرمی سٹاف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تقرر کے لئے سمری صدر مملکت کو بھجوا دی۔ عمران خان اس سمری کی دس دن کے اندر منظوری یا اسے نظرثانی کے لئے وزیر اعظم کو واپس بھجوانے سے متعلق صدر کے آئینی اختیار کی طاقت کے ساتھ ان اہم تقرریوں پر کھیلنے کا عندیہ دے چکے تھے جس کے لئے صدر عارف علوی عمران خان کے ٹائیگر بن کر ایوان صدر سے نکلے اور لاہور میں عمران خان کے پاس پہنچ گئے۔ مگر جس ایشو پر وہ غلیط سیاسی کھیل کھیلنے کا عندیہ دے رہے تھے وہ حکومت نے اس کھیل کے آغاز سے پہلے ہی جنرل عاصم منیر کو فوج کے ادارے میں برقرار رکھنے کا نوٹیفکیشن جاری کر کے ناکام بنا دیا چنانچہ کھسیانی بلی نے کھمبا نوچتے ہوئے وزیر اعظم کی بھجوائی سمری پر صدر کے دستخط کرا کے اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔
چلیں بھائی صاحب، کریڈٹ آپ ہی کا ہوا ۔مگر آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا تقرر عمل میں آنے کے بعد جس کا کریڈٹ بھی آپ لے چکے، لانگ مارچ جاری رکھنے اور اسلام آباد تک پہنچانے کا جواز تو ازخود ختم ہو گیا تھا۔ پھر بھی لانگ مارچ جاری رکھا گیا جس کے دوران اسٹیبلشمنٹ کو رگڑا دینے کا سلسلہ بھی برقرار رکھا گیا تو کیا اس سے دنیا کو آپ یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ہمیں میرٹ اور سنیارٹی لسٹ پر کوئی تقرر قبول نہیں۔ عمران خان غالباً اسی پیغام کو تھامے لانگ مارچ کی قیادت کرنے کے لیے راولپنڈی پہنچ گئے جہاں ان کے ڈائس پر آنے سے پہلے تک پی ٹی آئی کارکنوں کی بدنظمی ، انتشار اور خواتین کے ساتھ بدتمیزی کے جو مناظر سامنے آئے وہ کسی سیاسی جماعت کی کسی منظم تحریک کی ہرگز عکاسی نہیں کرتے تھے۔
سوشل میڈیا پر یہ معاملہ گرم ہوا اور تنقیدی نشتروں کا رخ خود عمران خان کی جانب ہونے لگا تو انہوں نے فیس سیونگ کے لئے لانگ مارچ اور جلسے کو راولپنڈی میں ہی ختم کرتے ہوئے سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں سے پی ٹی آئی کے ارکان کے مستعفی ہونے اور تمام منتخب ایوانوں سے باہر آنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم بعدازاں جب احساس ہوا کہ انہوں نے قومی اسمبلی سے اپنے ارکان مستعفی کرا کے کیا حاصل کر لیا ہے جبکہ اس سے مخلوط حکومت کے پائوں مضبوط ہو گئے ہیں اور وزیر اعظم کے سر سے عدم اعتماد کے خطرے کی تلوار ہٹ گئی ہے۔ پی ٹی آئی کے ’’عالی دماغوں‘‘ کی جانب سے پنجاب اور خیبر پی کے اسمبلی توڑنے کا عندیہ دیا جانے لگا جہاں پی ٹی آئی کی اپنی حکومتیں قائم ہیں۔ یہ عجیب سیاست ہے کہ سسٹم کا خود کو حصہ نہ بنانے کا اعلان کرنیوالے یہ حضرات قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کے بعد بھی بطور رکن اسمبلی ساری سہولتوں، مراعات بشمول سرکاری گاڑی اور رہائش گاہ سے خوب استفادہ کرتے رہے اور ابھی تک یہ ساری سہولتیں انجوائے کر رہے ہیں۔ ایسی مفاد پرستانہ سیاست ہی اب انہیں صوبائی اسمبلیوں اور سینٹ سے بھی باہر نکلنے کی راہ دکھا رہی ہے مگر اب وہ شش و پنج میں ہیں کہ استعفے دئیے جائیں یا اسمبلیاں توڑی جائیں۔
جن دو صوبوں میں خالصتاً پی ٹی آئی کی حکومت ہے وہاں تو اسے اسمبلیاں توڑنے میں کوئی دقت نہیں ہو گی کیونکہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے اس مقصد کے لئے بھجوائی سمری پر گورنر کو آئین کے تقاضے کے تحت 48 گھنٹے کے اندر اندر دستخط کرنا ہوتے ہیں مگر بلوچستان اسمبلی میں پی ٹی آئی کے لئے ’’میکدے‘‘ کے حالات سراسر بدل چکے ہیں جہاں نہ پی ٹی آئی کے تمام ارکان استعفے دینے کو تیار ہیں اور نہ ہی وزیر اعلیٰ اسمبلی توڑنے کی سمری گورنر کو بھجوانے پر آمادہ ہیں۔ بے شک پنجاب کے وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اپنے قول کی لاج رکھتے ہوئے اسمبلی توڑنے کی سمری بھجوا دیں گے اور وزیر اعلیٰ خیبر پی کے کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے مگر پھر آئینی موشگافیاں نکلیں گی اور ان دونوں وزرائے اعلیٰ کی سمریاں متعلقہ ہائیکورٹوں میں چیلنج ہو جائیں گی جہاں اسمبلی توڑنے کے جواز اور نیت پر بحث ہو گی۔ صدر کو 1993ء تک آئین کی دفعہ 58 اور اس شقوں ٹو بی کے تحت قومی اسمبلی توڑنے کا صوابدیدی اختیار حاصل تھا جو انہوں نے 1988ء اور 1990ء کی اسمبلیاں توڑنے کے لئے استعمال کیا مگر 1990ء کی اسمبلی توڑنے کا اقدام ان کے گلے پڑ گیا اور سپریم کورٹ نے اس رولنگ کے ساتھ وہ اسمبلی بحال کر دی کہ صدر کا صوابدیدی آئینی اختیار کسی بدنیتی کے تحت اور بلاجواز استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا ہی فیصلہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے 1995ء میں میاں منظور وٹو کی حکومت برطرف کرنے کے لئے گورنر پنجاب راجہ سروپ خاں کے احکام کالعدم قرار دینے کی صورت میں صادر کیا گیا اور جب گورنر نے میاں منظور وٹو کی بطور وزیر اعلیٰ بحالی کے بعد انہیں چارج سنبھالنے سے روکنے کے لئے اسمبلی کا ہی گلا گھونٹ دیا تو ہائیکورٹ نے اس اقدام کے بدنیتی کے تحت اٹھائے جانے کو ہی اپنے فیصلے کی بنیاد بنایا تھا۔
تو جناب! اعلیٰ عدلیہ کے ان فیصلوں کی روشنی میں پنجاب اور کے پی کے اسمبلی توڑنے کے اقدامات بھی اعلیٰ عدلیہ میں کالعدم قرار پا سکتے ہیں۔ اس لئے عمران خان کے لئے ان سیاسی اور آئینی ایشوز پر کھیلنا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ وہ اپنے سچے جھوٹے بیانئے کی بنیاد پر آزاد کشمیر کے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں تو اسی بیانئے کو آئندہ عام انتخابات میں بھی وہ کیش کرا سکتے ہیں۔ اسمبلیوں کی آئینی مدت کی تکمیل ان کے لئے کیا معنی رکھتی ہے۔ لانگ مارچ کے حوالے سے ان کی ’’فیس سیونگ‘‘ ہو چکی ہے تو اب وہ صبر و تحمل کے ساتھ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوری ہونے کا انتظار کریں اور کبھی طبیعت میں اضطراب یا اضطراری کیفیت پیدا ہو تو کسی شہر میں ایک بھرپور جلسہ ’’کھڑکا‘‘ کر دل پشوری کر لیا کریں جس کا انہیں اچھا خاصہ تجربہ بھی ہو چکا ہے۔ مگر روئے سخن اب بھی اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہوگا تو انہیں لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ وہ اسمبلیاں توڑنے کی ضد پر اڑے رہیں گے تو اس کے لئے پنجاب میں انہیں سخت جھٹکا بھی لگ سکتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی اپنی وزارت اعلیٰ کے معاملہ میں بے شک انہی کے مرہونِ منت ہیں مگر کسی آشیر باد کے بعد وہ انہیں بار بار ’’نیپیاں‘‘ تبدیل کرنے کا دوبارہ طعنہ بھی دے سکتے ہیں۔ بھلا حالات بدلتے کوئی دیر لگتی ہے۔