وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جی ایچ کیو کی طرف سے بھیجی گئی سینئر افسران کی سنیارٹی لسٹ میں سے جنرل ساحر شمشادمرزا کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف مقرر کردیا ہے ۔وزیراعظم کو آئین کے تحت اختیار حاصل ہے کہ وہ جسے چاہیںان اہم ترین عہدوں پر فائز کرسکتے ہیں ۔ تاہم وزیراعظم نے میرٹ کا مکمل لحاظ رکھتے ہوئے یہ دونوں اعلیٰ سطح کی اہم تقرریاں کی ہیں۔فوج میں اعلیٰ سطح کی یہ دونوں تقرریاں ایک معمول کی کارروائی تصور کی جاتی ہے ۔ لیکن گذشتہ آٹھ مہینوں میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ان تقرریوں کے بارے میں وہ دھول اڑائی کہ خدا کی پناہ۔ کبھی وہ کہتے کہ تقرری میرٹ پر کی جائے ، کبھی کہتے کہ جسے چاہیں ،مقرر کرلیں ، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کبھی یہ مشورہ صادر کردیتے کہ جنرل قمر باجوہ کو ہی توسیع دیدی جائے تاکہ وہ نئے الیکشن کروائیں اور آنے والی منتخب حکومت نیا آرمی چیف مقرر کرے۔
عمران خان نے جنرل باجوہ کو یہاں تک بھی پیش کش کی کہ وہ ان کا ساتھ دیںتو انہیں تاحیات آرمی چیف مقرر کیا جاسکتا ہے۔ مگر جنرل باجوہ نے ان کی یہ پیشکش ٹھکرادی ،کیونکہ فوج نے گذشتہ سال فروری میں فیصلہ کیا تھا کہ اب وہ سیاست میں دخل اندازی نہیں کرے گی۔ اس طرف سے مایوس ہوکر عمران خان صاحب نے یہ کہنا شروع کردیا کہ نیا آرمی چیف لندن میں بیٹھا ہوا ایک شخص مقرر کرے گا، جسے ایسا کرنے کا کوئی آئینی اختیار حاصل نہیں۔ بہرحال وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اتحادی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے تمام اتحادی جماعتوں کے قائدین کو اعتماد میں لیااور ان کے مشوروں کے ساتھ نئی تقرریوں کا فیصلہ کیا۔ اس طرح فوج میں دونوں نئی تقرریوں کو پوری قوم کا اعتماد حاصل ہوا ہے ۔
پاکستان میں نئے آرمی چیف کا تقررہمیشہ وزیراعظم کی صوابدید کے مطابق ہوتا رہا ہے اور اس میں میرٹ کا کبھی لحاظ نہیں رکھاجاتا۔ ہمیشہ کسی جونیئرجرنیل کو اس منصب پر فائز کیا جاتا رہا۔ ایسا کرتے ہوئے وزیراعظم کی سوچ یہ ہوتی تھی کہ ان کی چوائس کا بندہ ان کا وفادار ثابت ہوگا، لیکن بھٹو نے ضیاء الحق کو اور نوازشریف نے مشرف کو سنیارٹی کا لحاظ رکھے بغیر صرف وفاداری کی توقع پر آرمی چیف مقرر کیا ،تو ان دونوں کی اپنے ہی مقرر کردہ آرمی چیفس سے نہ بن سکی۔ پاک فوج پروفیشنل ہونے کے اعتبار سے دنیا بھر میں اپنا ثانی نہیں رکھتی، اس لئے جتنے بھی لیفٹیننٹ جنرلز بنتے ہیں، ان میں سے کسی کو بھی آرمی چیف لگایا جاسکتا ہے ، کیونکہ وہ سارے کے سارے مختلف ٹیسٹوں ،تجزیوں اور تجربات کی بھٹی سے گذرے ہوتے ہیں ۔ ویسے محض سنیارٹی کا اصول آرمی چیف کی تقرری کیلئے لاگو نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ بعض اوقات میڈیکل کور ،سگنل کور، ایجوکیشن کوروغیرہ کا غیرلڑاکا فوجی افسر بھی تجربے کے لحاظ سے سینئرہوسکتا ہے ۔ مگر اسے پوری فوج کی کمان نہیں سونپی جاسکتی۔ اس لحاظ سے وزیراعظم کو نئے آرمی چیف کا انتخاب کرتے ہوئے انتہائی احتیاط اور ذمہ داری سے کام لینا پڑتا ہے ۔
پاکستان اندرونی اور بیرونی خطرات سے ہمیشہ دوچار رہا ہے ۔اور خاص طور پر چھ گنا بڑا ملک بھارت ،پاکستان کے لئے ہمیشہ آزار ثابت ہوا ہے ۔ وہ پہلے دن ہی پاکستان کیخلاف فوجی جارحیت کا مرتکب ہوا اور جموں کشمیر کا بڑا حصہ اپنے قبضے میں لے لیا۔ 1971ء میں بھارت نے مشرقی پاکستان کی آبادی کو ورغلایا اور اسے پاک فوج کادشمن بنادیا۔جس کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں متعین پاکستان کی 37ہزار فوج کوبھارت کے سامنے سرنڈر کرنا پڑا ۔
بدقسمتی سے آج پاکستان کو ایک بار پھر 71ء کے حالات سے دوچار کیا جاچکا ہے ۔ عمران خان نے صرف اپنے سیاسی مفادات کی خاطرفوج کیخلاف تضحیک آمیز مہم چلائی ۔اس کے نوجوان پیروکار وں نے اس آگ کو مزید بھڑکایا ۔مگر یادرکھئے کہ 71ء کی طرح پاک فوج اب کوئی ایسٹ بنگال رجمنٹ نہیں ہے ، جس کے پاس کرنل عثمانی یا میجرضیا ء نہیں ہیں ،جو بغاوت کا راستہ اختیار کرلیں، اب پاک فوج یکجان ہے او ر آرمی چیف کا حکم وہ سرآنکھوں پہ رکھتی ہے ۔ پاک فوج میں انتشار و تفریق پھیلانا ایک مذموم دھندا ہے ۔ مگر ساری کوششوں کے باوجود کسی کی یہ آس پوری نہیں ہوسکی ، نہ ہوسکتی ہے۔قوم کو البتہ سیاسی طور پر تقسیم کردیا گیا ہے ۔ لیکن ڈیڑھ درجن سیاسی پارٹیاں ایک طرف ، اور صرف تحریک انصاف او راسکے پیروکار دوسری طرف۔ کسی بھی فارمولے کے تحت عوام کو خانہ جنگی میں نہیں الجھایا جاسکتا۔باشعور عوام کو دوست اور دشمن کی تمیز ہے ۔ وہ تحریک انصاف کی حکومت کو چار برس تک آزماچکے ہیں ۔ جس نے انہیں مہنگائی، پریشانی اور سفارتی تنہائی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ ایک کروڑ نوکریوں کے خواب دکھائے ، ایک ارب درخت لگانے کا نعرہ لگایا، پچاس لاکھ گھر وں کی تعمیر کا پرفریب اور خوشنمانعرہ بھی لگایا۔ گلی گلی بارہ ہزار روپے تقسیم کرنے کے منصوبے بھی بنائے گئے، مگر یہ سب کچھ ریت کا گھروند ا ثابت ہوا ۔ تحریک انصاف کے دامن میں کارکردگی کا کوئی ریکارڈ نہیں جبکہ موجودہ برسراقتدار پارٹی اور اسکی اتحادی جماعتیں ملک میں موٹرویز کا جال بچھاچکی ہیں۔ بجلی گھروں کے نت نئے منصوبے مکمل ہوچکے ہیں۔ سی پیک جیسا عظیم الشان مستقبل تعمیر ہونے کو ہے ۔ اس لئے تحریک انصاف محض روڑے اٹکانے میں مصروف ہے۔
جہاں تک پاک فوج کا تعلق ہے ، اس پر پوری قوم فخر کا اظہار کرتی ہے ۔ اس بہادر جانباز فوج نے ایٹمی اور میزائل پروگرام مکمل کرکے بھارت کی ہرلمحے کی بلیک میلنگ اورجارحیت کے خوف سے نجات دلائی اوراندرون ملک دہشت گردی کی جنگ کو اپنی جانوں پر کھیل کر شکست فاش سے دوچار کیا۔پاکستان الحمدللہ دفاعی لحاظ سے ناقابل تسخیر ہوچکاہے ۔ آج ہرپاکستانی جنرل قمر جاوید باجوہ کے عظیم الشان کارناموں پر ان کی تحسین و ستائش کررہا ہے ، اور جنرل عاصم منیر کو خوش آمدید کہتا ہے کہ وہ ہمارے مستحکم مستقبل کی زندہ وتابندہ علامت ثابت ہوں گے،ان شاء اللہ۔
فوج میں اعلیٰ تقرریاں
Nov 29, 2022