تین روز قبل دارالحکومت کے جڑواں شہر راولپنڈی میں منعقد ہونے والا پی ٹی آئی کا جلسہ ایک بھرپور جلسہ تھا۔ اس کی بازگشت سیاسی فضا میں ابھی تک ارتعاش پیدا کر رہی ہے۔ سانحہ وزیرآباد میں زخمی ہونے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ عمران خان نے زخمی حالت میں اس جلسہ گاہ میں نہ صرف شرکت کی بلکہ عوام سے خطاب بھی کیا۔ تمام مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کے اکثر چینلز پر اس جلسے کی کوریج کی گئی۔
پی ٹی آئی کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ اس جلسے میں ایک ملین سے زائد افراد نے شرکت کی جبکہ خواجہ آصف کاکہنا تھا کہ’اس جلسہ میں سو سے بھی زائد افراد شامل نہیں ہوں گے‘۔ بہرحال جلسہ کے شرکاء کی تعداد نے سیاسی عناد کی بنا پر داغے گئے ان کے بیان کی تردید و تغلیط کر دی۔ پی ٹی آئی کے حامیوں اور مخالفوں کی بتائی جانے والی تعداد سے قطع نظر حقیقت یہی ہے کہ یہ جلسہ راولپنڈی ہی نہیں پاکستان کی تاریخ کا ایک یادگار تاریخی جلسہ تھا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس اجتماع میں سرپرائز دیں گے۔ سو انہوں نے سرپرائز دیتے ہوئے اعلان کیا کہ جن صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اُن صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی۔ یہ سرپرائز یقینا ملکی سیاسی منظرنامے میں تبدیلی کا پیش خیمہ ہو گا۔
آئیے! آج اس نشست میں پاکستان کی چند اہم اور تاریخی جلسہ گاہوں کا اجمالی تذکرہ کر لیتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ لاہور کی تاریخ کا ایک تاریخ ساز اور عہد ساز جلسہ 23مارچ 1940ء کو اقبال پارک میں منعقد ہوا۔ اس جلسے کا انعقاد اس دور کی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کی جانب سے کیا گیا۔ اس جلسہ کی صدارت قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کی۔ تب اس پارک کا نام منٹو پارک تھا۔ اس کا رقبہ 67ایکڑ بتایا جاتا ہے۔ تب یہ شہر لاہور کا ایک وسیع و عریض باغ تھا۔ ایوب خان کے دور میں اس پارک میں قرار داد پاکستان کی یاد کو جاودانی حیثیت دینے کے لیے مینار پاکستان کی تعمیر کی گئی۔ اب منٹو پارک اقبال پارک کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شروع میں اسے ’مینار پاکستان گراؤنڈ‘ کا نام بھی دیا گیا۔
1970ء کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کو متحدہ پاکستان کے عام انتخابات میں کل نشستوں میں سے 33 فیصد سے زائد نشستیں حاصل ہوئیں۔ 1971ء کے اوائل میں مینار پاکستان کے زیر سایہ ایک عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھٹو نے عام انتخابات میں 67فیصد نشستیں حاصل کرنے والے شیخ مجیب الرحمن کی جانب روئے سخن کرتے ہوئے دھمکی دی کہ ’’مغربی پاکستان سے جو رکن اسمبلی 23 مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان کی ڈھاکہ اسمبلی میں اجلاس کی شرکت کی غرض سے جائے گا وہ یکطرفہ ٹکٹ لے کر جائے اور جس نے بھی ایسا کیا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی‘‘۔
بہرطور یہ ایک الگ موضوع ہے تاہم 10 اپریل 1986ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے اقبال پارک کے گراؤنڈ میں جلسہ کیا ۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس جلسے میں 70 لاکھ سے زائد افر اد شریک ہوئے جبکہ اقبال پارک کے سبزہ زار کا دامن 70 لاکھ سے زائد افراد سمونے کی گنجائش نہیں رکھتا۔ یہاں ہونے والے اہم ترین جلسوں میں 14 اگست 2000ء کو منعقدہ جماعت اسلامی کا 3 روزہ اجتماع عام بھی تھا۔ اسی سال ایم کیو ایم نے بھی اقبال پارک میں اپنا پہلا کامیاب جلسہ کیا۔
تحریک انصاف نے بھی 30 اکتوبر 2011ء اور بعدمیں 23 مارچ 2013ء کو مینار پاکستان کے زیر سایہ کامیاب ترین جلسے کیے اور موروثی سیاسی جماعتوں کے ایوانوں میں لرزہ طاری کر دیا۔
کراچی کی جلسہ گاہوں میں نشتر پارک، ککری گراؤنڈ نمایاں ہیں۔ ککری گراؤنڈ میں پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو، بینظیر بھٹو، بلوچ رہنماؤں میر غوث بخش بزنجو ، سردار عطاء اللہ مینگل، نواب خیبر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی، قومی رہنماؤں مولانا مودودی ، مولانا عبیداللہ سندھی اور عمران خان نے بھی خطاب کیا۔ یہ ایک وسیع و عریض گراؤنڈ تھی لیکن اس کی وسعت حکمرانوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے سمٹتی جا رہی ہے اور اب سیاسی جماعتوں کے زیادہ توجہ کراچی کی عوامی شاہراہوں کو جلسہ گاہ بنانے پر مرتکز ہے۔
کراچی کی دوسری مشہور جلسہ گاؤ نشتر پارک ہے۔ یہ ایک وسیع و عریض پارک تھا اور قیام پاکستان سے قبل اس کا نام ’’پٹیل پارک‘‘ تھا۔ یاد رہے کہ ’’ولبھ بھائی پٹیل‘‘ جو ایک کانگرسی رہنما اور کٹر مہاسبھائی ہندو تھے یہ پارک اُن کے نام سے منسوب تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس کا نام قائد اعظمؒ کے دست راست اور تحریک قیام پاکستان کے ایک قد آور ممتاز اور سر بر آوردہ رہنما سردار عبدالرب نشتر کے نام سے منسوب کر کے نشتر پارک رکھ دیا گیا۔ آج سے 50 سال قبل تک اس پارک کاشمار ملک کی بڑی سیاسی جلسہ گاہوں میں ہوتا تھا۔ 1965ء میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے صدارتی امیدوار کی حیثیت سے ایوب خان کے خلاف اسی پارک میں ایک فقید المثال جلسہ کیا تھا۔ 57 برس قبل اس جلسہ کے شرکاء کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز تھی جبکہ اس پارک میں صرف 40 ہزار افراد کی گنجائش ہے۔
پیپلزپارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو، عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن ، نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما عبدالحمید خان بھاشانی اور دیگر قابل ذکر رہنما بھی اس جلسہ گاہ میں اپنے جوش خطابت کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔
1977ء میں قومی اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی اسی پارک میں بھٹو مخالف بڑے جلسوں کا انعقاد کیا تھا۔ 1986ء میں مہاجر قومی موومنٹ کے بانی الطاف حسین نے اسی پارک سے مہاجروں کے حقوق کے لیے جدوجہد کا آغاز کرتے ہوئے جلسہ کا انعقاد کیا تھا۔بعد ازاں نشترپارک میں امن و امان کی بگڑتی صورتحال کے پیش نظر سیاسی جلسوں کے انعقاد سے سیاسی جماعتوں نے اجتناب کی روش اپنائی۔ اسکے بعد زیادہ تر جلسے ایم اے جناح روڈ اور شاہراہ لیاقت پر منعقد ہوتے رہے۔
یہ امر لائق توجہ ہے کہ رالپنڈی کی مشہور جلسہ گاہ لیاقت باغ ہے۔ پہلے اسے کمپنی باغ کہا جاتا تھا۔ شروع میں اس کا نام لیاقت نیشنل باغ بھی رکھا گیا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اُن کے نام نامی سے اس باغ کو منسوب کر دیا گیا۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کی شہادت بھی اسی باغ میں ہوئی اور یہ سوئے اتفاق ہے کہ 27 دسمبر 2007ء کو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کی دلدوز شہادت کی یادیں بھی اسی باغ کے اجتماع سے جڑی ہوئی ہیں۔
محترمہ کی شہادت کے بعد یہاں دوسرا بڑا جلسہ 27 مئی 2012ء کو پاکستان تحریک انصاف نے کیا۔ اسی طرح ایک یادگار جلسہ تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام ڈاکٹر طاہر القادری نے بھی اسی باغ میں کیا۔ اس جلسہ کا شمار بھی لیاقت باغ کے کامیاب ترین جلسوں میں کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر اگر لاہور کے باغ بیرون موچی دروازہ کا ذکر نہ کیا جائے تو یقینا یہ سنگین زیادتی ہو گی لیکن کالم کی تنگ دامانی کے باعث اس کا تذکرہ آئندہ سپرد قلم کیا جائے گا۔
٭…٭…٭