الیکشن ملتوی کرنے کی فرمائش، ذکا اشرف کی سوگواری

حسن طلب کے انداز گوناگوں ہیں۔ کوئی مہمان آ جائے اور باتوں باتوں میں کہہ دے کہ کافی بھی کیا شے ہے، پیتے ہی تھکن دور ہو جاتی ہے تو سمجھ جائیے وہ کافی پلانے کی فرمائش کر رہا ہے۔ حسن طلب کا ایک انداز اندیشہ ہائے بابنیاد پر بھی استوار ہوتا ہے۔ آپ کو وہ مبتذل سا لطیفہ یا دھوکا (یقینا یاد ہوگا کہ مبتذل باتیں بالمعموم ناقابل فراموش کے زمرے میں آتی ہیں) جس میں ایک خاتون راہ چلتے مسافر کو روک لیتی ہے۔ مسافر نے کچھ زاد راہ سر پر اٹھا رکھا ہے، کچھ بغل میں دبا رکھا ہے اور کچھ ہاتھوں میں تھام رکھا ہے۔ خاتون کہتی ہے تم مجھے چھیڑو گے۔ راہگیر مسافر نفی میں سر ہلاتا ہے، کہتا ہے میں شریف آدمی ہوں تمہیں کیوں چھیڑوں گا۔ خاتون اصرار کرتی ہے نہیں، مجھے پتہ ہے تم مجھے چھیڑو گے۔ مسافر کہتا ہے میرے سر پر بوجھ ہے، ہاتھوں میں سامان، چاہوں بھی تو نہیں چھیڑ سکتا۔ خاتون کہتی ہے، نہیں، تم گٹھڑی اتار کے یہاں رکھو گے، بغل کا سامان وہاں ، اس کے اوپر ہاتھ میں پکڑی چیزیں پھر تم مجھے چھیڑو گے۔ 
یعنی حسن طلب ہی نہیں تعمیل فرمائش کا طریقہ بھی بتا دیا۔ ایسی ہی ایک حسن طلب ان دنوں ”خبر“ کی صورت میں ایک کاریگر لابی کے دہن و قلم سے دیکھنے کو مل رہی ہے۔ خبریں یوں دی جا رہی ہیں کہ الیکشن ملتوی ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ پختونخواہ کے حالات اچھے نہیں نیز ملک معاشی بحالی کی راہ پر چل پڑا ہے، فروری میں الیکشن ہوئے تو معاشی بحالی میں تعطل پیدا ہو جائے گا۔ 
یہ لابی اس حسن طلب کیلئے ایک بڑے میڈیا گروپ کو استعمال کر رہی ہے۔ یہ واضح نہیں کہ میڈیا گروپ کے مالکان بھی اس حسن طلب میں حصہ دار ہیں یا نہیں۔ 
حسن طلب یہ ہے کہ سرکار، مائی باپ، الیکشن ملتوی کر دیں۔ بہانہ ہم بتائے دیتے ہیں اور ایک نہیں دو دو، ایک تو کے پی میں حالات اچھے نہیں، روز بم پھوٹتے اور خودکش بمبار اڑتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ ملک میں اچھی خاصی معاشی بحالی ہو رہی ہے، تاجر خوش ہیں، الیکشن ہوئے تو معاشی بحالی متاثر ہو گی۔ بس یہی دو بہانے کافی ہیں، اللہ کا نام لیں اور الیکشن ملتوی کر دیں۔ ہم اور ہمارے وہ رشتہ دار، دوست احباب جو نگراں حکومت میں وزارت مشارت کے مزے لے رہے ہیں، تاحیات آپ کو دعادیں گے، بھاگ لگے رھن! 
______
حسن طلب کی اداکاری اچھی ہو سکتی تھی اگر سکرپٹ اچھا ہوتا۔ سکرپٹ کی بنیادیں خاصی ناتوانائی کا شکار ہیں۔ 2007ءکے الیکشن میں بھی کے پی کے حالات بہت خراب تھے بلکہ باقی صوبوں کے حالات بھی اتنے اچھے نہیں تھے۔ بے نظیر کی شہادت کی صورت میں ملک ”قومی سانحے“ کے بعد کے ٹراما سے گزر رہا تھا، پھر بھی الیکشن ہو گئے۔ اس لئے اس دلیل کو تو رہنے ہی دیجئے۔ 
دوسری دلیل سرے سے کوئی دلیل ہی نہیں ہے۔ آج تک دنیا کے کسی ملک کے کسی دانشور، سیاسی پنڈت سے ایسی بات نہیں سنی کہ الیکشن ہونے سے معیشت متاثر ہوتی ہے۔ جن ملکوں میں الیکشن کا ناغہ کبھی ہوتا ہی نہیں، وہی معاشی میدان میں سب سے آگے ہیں۔ بنگلہ دیش اس قطار میں بہت بعد میں لگا، ہم سے آگے نکل گیا۔ آفتاب کی کرن کو پاپوش میں لگانے سے الیکشن ملتوی نہیں ہوں گے البتہ یہ کوشش جاری رہیں تو میڈیا گروپ کی صحت متاثر ہو سکتی ہے۔ مضر صحت اشیاءکو اپنی پہنچ سے دور رکھئے۔ 
______
یہ اندیشہ ناک خبر تو گھر کی گھڑی ہوئی ہے، اصل خبر یہ ہے کہ الیکشن کروانے والے 8 فروری کی تاریخ پر ڈٹ گئے ہیں۔ نہ 7 فروری، بس آٹھ فروری۔ 
بہت اندر کی خبر رکھنے والے بتاتے ہیں کہ میڈیا گروپ کو استعمال کرنے والی یہ نیم بالغ SEMI MATURE لابی دراصل ”حقیقی آزادی“ والوں کی طرف سے تفویض کردہ ڈیوٹی نبھا رہی ہے۔ حقیقی آزادی والے 8 فروری کے انتخابات میں تہی دامن رہیں گے، انہیں اچھی طرح پتہ ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ہم نہیں تو دوسرے بھی نہیں۔ عرض تمنّا کی بس اتنی کہانی ہے۔ "حقیقی آزادی“ کے کیمپ کی تحلیل نفسی بار بار ہو چکی ہے کہ ہم ڈوبے تو جگ ڈوبا۔ یاد ہو گا حقیقی آزادی کے قائد نے تخت شاہی سے معزول ہونے کے بعد کیا فرمایا تھا؟۔ یہ فرمایا تھا کہ اس سے اچھا تھا اس ملک پر ایٹم بم پھینک دیتے۔ اس سے اچھا تھا یہ ملک بنتا ہی نہیں۔ کچھ اور بھی فرمایا تھا۔ چنانچہ یہ نیم بالغ لابی اس مہم پر ہے کہ خان نہیں تو نواز شریف بھی کیوں آئے۔ 
الیکشن 8 فروری کو ہوں گے اور اسی روز اس مہم کے ورقے نکال کر ان پر یہ سرخی جمائی جا سکے گی کہ حسرت اس غنچے پر ہے جو بن کھلے مرجھا گیا۔ ویسے پیش گوئی کے حساب سے یہ مصرعہ اب بھی عنوان بن سکتا ہے، کوئی ہرج نہیں۔ 
______
اس لابی کو دلائل کے ”قحط الرجال“ کا سامنا ہے۔ ازیں پیشتر یہ لابی خان کو معافی دے دو کی مہم بھی چلا چکی ہے جو عدم توجہ کی وجہ سے عالم شیر خوردگی میں رحلت فرما گئی تھی۔ دلائل کچھ یوں تھے کہ جب نواز شریف نے باجوہ اور فیض کا نام سرعام لیا تو اتنے بڑے جرم کو بھی تو معاف کر دیا گیا۔ اگر اتنا بڑا جرم معاف ہو سکتا ہے تو کور کمانڈر ہاؤس اور فضائیہ کے ائیر پورٹ کو نذر آتش کرنے وغیرہ کی ذرا ذرا سی خطائیں کیوں معاف نہیں ہو سکتیں۔ وغیرہ میں رینجرز دفاتر اور ریڈیو پاکستان کی بلڈنگ کی خاکستری سمیت متعدد ذرا ذرا سی غلطیاں بھی شامل ہیں۔ 
مسئلہ بس اتنا ہے کہ معاملے کو سمجھ لیا جائے اور معاملہ یہ ہے کہ نہ تو 9 مئی کی معافی کا امکان ہے نہ 8 فروری کو الیکشن نہ ہونے کا کوئی خدشہ ....اس امکان اور اس خدشے کو حسن طلب کی فہرست سے نکال دیں اور حسن طلب مضمون نئے سرے سے لکھیں۔ 
______
پی سی بی کے چیئرمین ذکااشرف ان دنوں سوگوار ہیں، ان سے اظہار یک جہتی ضروری ہے۔ 
وجہ سوگواری یہ بنی کہ کرکٹ ٹیم کے ایک کھلاڑی اعظم خاں نے کہیں فلسطینی پرچم لہرا دیا۔ اعظم خاں کو اس پر ترنت سزا سنا دی گئی لیکن سزا سنانے کے باوجود ذکا اشرف کی سوگواری کم نہیں ہو رہی۔ ایک صورت ہو سکتی ہے، یہ کہ کوئی اور کھلاڑی ازالے کیلئے اسرائیل کا پرچم لہرا دے اور یوں ذکا اشرف صاحب کو پرسہ دے۔ بظاہر ایسا ممکن نہیں، چنانچہ بظاہر ذکا اشرف کی سوگواری ختم ہونا بھی ممکن نہیں۔ چلئے، ذکا اشرف صاحب اب مسکرا بھی دیجئے، عمر بھر بھی کوئی اس طرح سوگوار رہتا ہے۔ چلئے ایک چکر اسرائیل کا لگا آئیں۔ 
______
جماعت اسلامی کراچی کے امیر نے مسئلہ فلسطین پر نواز شریف اور آصف زرداری کی خاموشی کو ہدف تنقید بنایا ہے اور خان صاحب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جیل کے اندر سے اسرائیلی مظالم کیخلاف بیان دیں۔ 
نواز شریف تو فلسطین سے یکجہتی ظاہر کر چکے البتہ ان کی جماعت خاموش ہے۔ زرداری صاحب کی خاموشی کی وجہ ذکا اشرف اعظم خاں کو معطل کر کے، شاید بتا چکے۔ عمران خان کیوں خاموش ہیں، اس کی وجہ جاننے کیلئے نعیم الرحمن صاحب کو اپنے امیر سراج الحق سے رابطہ کرنا ہو گا کہ وہ خان کے دردآشنا ہیں۔

ای پیپر دی نیشن