برین ڈرین یا رئٹ ریس؟ 

Nov 29, 2023

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ

چند روز پہلے کی بات ہے اس خاکسار کا اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ اسلام آباد میں چک شہزاد والے پارک روڈ پر واقع ایک کیش اینڈ کیری پر جانے کا اتفاق ہوا۔ گاڑی کی پارکنگ کیلیئے جیسے ہی پارکنگ ایریا میں داخلے کی کوشش کی تو ایسے لگا جیسے پورے اسلام آباد کی گاڑیاں پہلے ہی یہاں پارکنگ کے لیے آئی ہوئی ہیں۔ خاکسار نے بیگم سے کہا پورا پاکستان مہنگائی کا رونا رو رہا ہے لیکن یہاں تو پارکنگ کا رش بتا رہا ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں بھی اس کیش اینڈ کیری کا بزنس ماشاءاللہ اپنے عروج پر ہے جس پر بیگم بولیں، ذرا ساتھ والی بلڈنگ کے سائن بورڈ پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ یہ ایک کورئیر کمپنی کا دفتر ہے جہاں پر یورپ اور امریکہ جانے کے خواہشمند اپنے پاسپورٹ جمع کروانے آئے ہوئے ہیں اور یہ سارا رش اسی دفتر کی بدولت ہے۔
پارکنگ کے بعد بیگم توکیش اینڈ کیری سے گھر کا سودا سلف خریدنے میں مصروف ہو گئیں لیکن اس رش نےاپنی فکری سوچوں کو 440 وولٹ کا ایسا جھٹکا دیا کہ نہ صرف خریداری میں کوئی دلچسپی نہ رہی بلکہ گھر آ کر بھی کئی گھنٹے انہی سوچوں میں گم رہا کہ چلو یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ ستر کی دہائی سے ہمارے مزدور طبقہ کی اکثریت نے بہتر روزگار اور معاوضہ کے حصول کی خاطر مڈل ایسٹ ہجرت کرنا شروع کی، چلو یہ بھی مان لیتے ہیں کہ نوے کی دہائی سے اس ملک میں لوٹ مار کا جو بازار گرم ہوا اس سرمائے کو تحفظ دینے کیلیئے پہلے سیاستدانوں پھر سرکاری افسران اور بعد میں کاروباری افراد نے یورپ اور امریکہ اندھا دھند پہلے دولت باہر بھیجی اور پھر ہر جائز اور ناجائز راستہ اپنا کر وہاں کی شہریت حاصل کی۔ لیکن وہ کیا وجہ بنی کہ پچھلے ایک دو سال سے یورپ، امریکہ حتیٰ کہ خلیجی ممالک جانے والوں کی اکثریت جو پڑھے لکھے افراد پر مشتمل ہے ہر طور اس کوشش میں ہے کہ کیسے اس ملک سے باہر نکلا جائے جسے حرف عام میں برین ڈرین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔فکری اساس کے لوگ کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ملک سرمائے کی منتقلی سے اتنے خسارے میں نہیں جاتا جتنا نقصان اسے یہ برین ڈرین پہنچاتا ہے۔ لیکن ہماری بدقسمتی کی انتہاءیہ ہے کہ ہمارے ہاں کا خود ساختہ دانشور کہلانے والا طبقہ جنکی اکثریت الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر قابض ہے، اس طرف کوئی دھیان ہی نہیں دے رہا۔ ویسے بھی آجکل چٹ پٹے انٹرویوز کا ایک ایسا ٹرینڈ چل پڑا ہے کہ ایسے نازک اور حساس موضوعات پر بات کرنا ایک فضول ایکسرسائز سمجھی جاتی ہے۔
کوئی مانے یا نہ مانے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان کو اپنی کمزوریوں کا ادراک ہوتا ہے، راقم کی یہ کمزوری ہے کہ اسکے ذہن کو جو فکر گھیر لے اس بارے اگر کوئی بڑا فورم دستیاب نہ بھی ہو تو دوستوں کی حد تک وہ اس پر ضرور بات کرتا ہے۔ بس اپنی اسی فطرت سے مجبور ان لمحات میں جب سے یہ برین ڈرین والی سوچ مجھے عجیب سے وسوسوں میں جکڑے ہوئے تھی میرا سامنا ایک ایسے شخص کرنل شاہدسے ہوگیا جو لاہور میں ایک بہت بڑی ٹرانسپورٹ سروس میں ایک اہم عہدے پر فائز ہے اور جس میں پاکستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اس شخص سے ملنے گیا تو کاروباری معاملات کیلیئے تھا لیکن دل کے ہاتھوں مجبور دو پاکستانیوں کے درمیان یہ ملاقات کاروباری سے زیادہ فکری نشست میں اس وقت بدل گئی جب دونوں کی گفتگو کا محور صرف اور صرف پاکستان اور اسکو درپیش مسائل بنے۔ میری اس برین ڈرین والی تشویش پر کرنل شاہد راقم سے کچھ اسطرح مخاطب ہوئے کہ ذرا ستر کی دہائی سے پہلے کے میٹرک پاس اور پھر اسّی کی دہائی کے بعد کے گریجوئیٹس کا ایک تقابلی جائزہ لیں تو آپکو پتا چلے گا کہ جہاں دنیا نے اپنے نظام تعلیم میں جدت لا کر ترقی کی نئی راہیں تلاش کیں وہاں ہم اپنے نظام تعلیم میں جدت لانے کی بجائے اسے مزید پستی کی طرف دھکیل کر لے گئے۔ انکے نزدیک اس زوال کا آغاز اس وقت ہوا جب ہمارے ہاں پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیز کا قیام عمل میں آیا۔ وہ کہنے لگے کہ ان پرائیویٹ کالجز اور یونیورسٹیز کے قیام کا مقصد تعلیم کو فروغ دینے کی بجائے پیسہ کمانا تھا جس کے لیے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت سب سے پہلے ان سوداگروں نے ان سرکاری اداروں کا رخ کیا جہاں نامور اساتذہ معمولی مشاہرے پر طلباءکو پڑھا رہے تھے، ایک طرف انہیں بھاری معاوضہ کے عوض اپنے کالجز اور یونیورسٹیز میں رکھ لیا اور دوسری طرف اپنے ان اداروں کے دروازے بھاری فیسوں کے عوض ان بگڑے نواب زادوں کے لیے کھول دئیے جو کسی صورت کسی میرٹ پر پورا نہیں اترتے تھے۔ نتیجہ آپ نے دیکھ لیا کہ پھر ان پرائیویٹ اداروں نے کیسے کیسے وکیل اور ڈاکٹر پیدا کیئے جن پر کچھ لکھنے یا کہنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی کیونکہ انکا کردار اور عمل بذات خود سب کچھ عیاں کر رہا ہے۔ تعلیم کے میدان میں اس کاروبار کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ وہ سرکاری ادارے جہاں میرٹ والے طلباءجاتے ہیں وہاں پائے کے استاد نہیں اور جہاں پائے کے استاد ہیں وہاں میرٹ والے طلباءنہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ دونوں اطراف کے فارغ التحصیل ہاتھوں میں کاغذ کے ٹکڑے، جنکا کوئی معیار نہیں، پکڑے بہتر مستقبل کی تلاش میں بھٹک رہے ہیں، کرنل شاہد کا کہنا تھا کہ جسے آپ برین ڈرین کہہ رہے ہیں وہ دراصل رئٹ ریس ہے، برین ڈرین تو تب ہو جب کہیں برین نام کی کوئی چیز ہو۔ مجھے تو موصوف کی ان باتوں سے اختلاف کا کوئی جواز نہیں مل رہا البتہ آپکے بارے کچھ کہہ نہیں سکتا کیونکہ اپنے ملک میں اگر کچھ کہنے کی آزادی نہیں تو کم از کم سوچنے پر کوئی پابندی نہیں۔

مزیدخبریں