پاکستان مختلف مسائل کے حل کے لیے جن برادر ممالک پر اعتماد کرسکتا ہے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کا شمار بھی انھی میں ہوتا ہے۔ اس اعتماد کو ایک تازہ پیشرفت کے ذریعے مزید استحکام حاصل ہوا ہے۔ سوموار کو نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ اور پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے ابوظہبی میں متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زید النہیان سے ملاقات کی۔ اس موقع پر نگران وزیراعظم اور اماراتی صدر نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تاریخی اور گہرے برادرانہ تعلقات ہیں جو وقت کی ہر آزمائش پر پورا اترے ہیں۔ دونوں رہنماو¿ں نے پاکستان اور امارات کے درمیان دوطرفہ تزویراتی تعاون اور بات چیت کو مزید مستحکم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا۔ انوارالحق کاکڑ نے اقتصادی اور مالیاتی شعبے میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستان کے لیے بھرپور تعاون پر گہرے شکر کا اظہار کیا۔
دونوں رہنماو¿ں نے پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان توانائی، پورٹ آپریشنز پروجیکٹس، ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ، فوڈ سکیورٹی، لاجسٹکس، معدنیات اور بینکنگ اینڈ فنانشل سروسز کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے تعاون سے متعلق مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخطوں کا مشاہدہ کیا۔ ان مفاہمتی یادداشتوں کی بدولت متحدہ عرب امارات کی پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو گی اور سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تحت مختلف اقدامات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ نگران وزیراعظم نے مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کو ایک تاریخی اقدام قرار دیا جس سے پاک متحدہ عرب امارات اقتصادی شراکت داری کے نئے دور کا آغاز ہوگا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اور متحدہ عرب امارات نے مختلف شعبوں میں اربوں ڈالر کی مفاہمتی یادداشتوں پر جو دستخط کیے ہیںاس سے دونوں ممالک کے درمیان معاشی تعاون، علاقائی استحکام اور تزویراتی شراکت داری کے نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔
اس وقت متحدہ عرب امارات تقریباً اٹھارہ لاکھ پاکستانی مقیم ہیں جن کے لیے امارات دوسرے گھر کی حیثیت رکھتا ہے اور وہ وہاں دونوں برادر ممالک کی ترقی، خوشحالی اور اقتصادی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان افراد کی امارات میں موجودگی سے دونوں ممالک کے تعلقات بھی مزید مضبوط ہورہے ہیں۔ مختلف شعبوں میں کام کرنے والے یہ لوگ پاکستان کے سفیروں کی حیثیت بھی رکھتے ہیں جو امارات میں صرف روزگار ہی نہیں کما رہے بلکہ دونوں ملکوں کے ایک دوسرے پر اعتماد کو بھی بڑھا رہے ہیں۔ پاکستان اور امارات کے مابین جو اربوں ڈالر کے نئے سمجھوتے ہوئے ہیں ان سے بھی جو نئے مواقع پیدا ہوں گے وہ دونوں ملکوں کو مزید مستحکم بنانے کے لیے اہم ثابت ہوں گے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ ان سمجھوتوں کے ذریعے جن شعبوں میں دونوں ملک مل کر کام کریں گے ان میں ہماری حکومت کی جانب سے کس قسم کا تعاون کیا جاتا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا سلسلہ 1970ءکی دہائی میں شروع ہوا تھا اور ان برادر مسلم ممالک کے درمیان دوستی کی بنیاد شیخ زید بن سلطان النہیان نے رکھی تھی ۔ اب ان کے صاحبزادے شیخ زید محمد بن النہیان اس دوستی کو نئی بلندیوں کی جانب لے کر جارہے ہیں۔ اسی حوالے سے انوارالحق کاکڑ نے اپنے خصوصی پیغام میں کہا کہ پاکستان اور امارات کے مابین جو نئے معاہدے طے پائے ہیں ان کے نتیجے میں شروع ہونے والے منصوبوں کے بہت جلد پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات نظر آئیں گے۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے کیونکہ پاکستان اس وقت جن معاشی مسائل میں الجھا ہوا ہے ان سے نکلنے کے لیے اسے دوست ممالک کے تعاون کی ضرورت ہے۔ امارات پہلے بھی اسی حوالے سے پاکستان کی بھرپور مدد کرچکا ہے اور اس کی مدد کے باعث ہی پاکستان اس قابل ہوسکا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے معاہدے میں ہونے والی تاخیر کے باوجود اپنی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچاسکے۔
نئے معاہدوں کے تحت پاکستان میں متحدہ عرب امارات کی طرف سے 20 سے 25 ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ اس تاریخی سرمایہ کاری سے پاکستان میں معاشی استحکام کی راہ ہموار ہو گی۔ اس حوالے سے ایک حوصلہ افزا امر یہ ہے کہ ایس آئی ایف سی کے تحت ان منصوبوں سے متعلق مختلف اقدامات کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ امارات میں تعینات پاکستان کے سفیر فیصل نیاز ترمذی کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک اپنے بہتر مستقبل کے لیے تزویراتی تعاون اور اقتصادی، تجارتی اور ترقیاتی انضمام کو بڑھانے کے خواہاں ہیں۔ پاکستان ٹیلی ویژن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تزویراتی شراکت داری کو مضبوط بنانے اور مشترکہ سرمایہ کاری میں اضافے کے ذریعے وسیع اقتصادی صلاحیتوں اور امتیازی مواقع کو بھی اجاگر کر رہے ہیں۔ فیصل ترمذی نے دونوں ممالک کے سرمایہ کاروں کے لیے امید افزا شعبوں کو اجاگر کرنے کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
یو اے ای کے ساتھ پاکستان کی دوطرفہ تجارت کا سالانہ حجم 10 ارب ڈالر ہے اور اب امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اس حجم میں اضافہ ہوگا۔ مزید یہ کہ متحدہ عرب امارات کو مختلف شعبوں میں مزید ہنر مند کارکنوں کی ضرورت ہے اور پاکستان اس سلسلے میں اس کی مدد کر کے ایک طرف اپنے ہنرمند افراد کے روزگار کے اچھے مواقع پیدا کرسکتا ہے اور دوسری جانب امارات کے ساتھ اس کے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کی ایک سبیل بھی پیدا ہوگی۔ اس سلسلے میں کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ تمام معاملات کو شفاف انداز میں آگے بڑھایا جائے تاکہ ہم پر کیے جانے والے بین الاقوامی اعتماد میں بہتری آئے اور دیگر ممالک بھی پاکستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کے فروغ کو اپنے لیے مفید سمجھتے ہوئے ہمارے ساتھ شراکت داری کے معاہدے کریں۔