عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com
بچپن کو اگرچہ نادانی کی عمر سمجھا جاتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ ہماری شخصیت پر اثرانداز ہوتا ہے اور کسی بھی انسان کی شخصیت اس کے بچپن میں ہی تشکیل پاتی ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ والدین سات سال تک بچے کی تربیت جیسی کریں گے بچہ سات سال بعد ویسا ہی رد عمل دے گا۔ سات سال کی عمر کے بعد اگر آپ بچے کی بنیاد درست کرنے کی ٹھانےں گے تو آپ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم اکثر تربیت کا مطلب سکھایا جانا سمجھتے ہیں۔ جبکہ تربیت میں وہ ماحول بھی شامل ہے جس میں بچہ جی رہا ہے، وہ جو کچھ بھی اپنے آس پاس ہوتا دیکھے یا سنے گا وہ سب اس کی تربیت کا حصہ بنتا جائے گا۔
یہ بل واسطہ یا بلاواسطہ دونوں طرح سے اثرانداز ہوتا ہے۔ مثلا اگر گھر کا ماحول پرسکون اور اس کے مکینوں کی گفتگو آپس میں شائستہ اور تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہو تو بچوں کو آداب گفتگوسکھانے پر محنت کم لگے گی ساتھ ہی اس بچے کے اندر خوداعتمادی کا عنصر بھی غالب رہے گا۔جبکہ اگر ہم بچو ں کو اخلاقیات کا درس دے رہے ہیں لیکن بچہ پریکٹیکل طور پر گھر میں اس کے بر عکس ماحول دیکھے تو اخلاقیات کے تمام لیکچر دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور بچہ وہی اپنائے گا جو وہ اپنے آس پاس موجود بڑوں کو کرتا دیکھ رہا ہے۔اس کے علاوہ اس کی نفسیات پر بھی منفی رحجان نمایاں رہے گا۔
ماہرین اطفال کے مطابق بچے کا تجزیہ کر کے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ بڑے ہو کر کیسی شخصیت کا حامل ہوگا۔
اگر آپ بچے کی شخصیت کا تجزیہ کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے ایک ہلکا لکڑی کا کھلونا اس کے سامنے میز پر رکھیں۔ اس کھلونے کی کوئی شکل ہوسکتی ہے جیسے گڑیا، کاریں، ٹرینیں، جانور، چھوٹے بنے ہوئے گھراس کے علاوہ پینسل، کاغذ اور قینچی وغیرہ بھی ہوسکتی ہے۔ایک تحقیق کے مطابق کھلونے بچے کو اپنی طرف متوجہ کریں گے۔ ان کے استعمال اور ہٹانے کے طریقہ کار اور کھیلنے کے ذریعے بچے کی شخصیت کے بارے میں آپ تجزیہ کرسکیں گے۔
تحقیق کے مطابق جب بچے کو کوئی کھلونا حیران کرتا ہے تو وہ اس کے ساتھ کھیلنے لگتا ہے، وہ اس کے بارے میں اپنی خواہشات اور تجربات کا اظہار کرتا ہے۔
کھلونے کے ساتھ مخصوص قسم کا سلوک کرنا جیسے اس کے بال کھینچنا، کھلونے کو رلانا وغیرہ یہ مختلف رویوں کی نشاندہی کرتا ہے اسے سمجھنے کے لیے بچے کے ماحول پر غور کیا جانا چاہیے کہ اس کے اردگرد کیا ہورہا ہے، اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ گھر میں کوئی مسئلہ ہو جس کی وجہ سے والدین پریشان ہوں اور بچے کی جانب توجہ نہ دے پا رہے ہوں۔
اس کے علاوہ تحقیق کے مطابق بچہ خود کو کھیل ہی کھیل میں جس کردار میں ڈھالتا ہے وہ درحقیقت اس کے ذریعے اپنے اندر کے خوابوں اور خیالات کی عکاسی کررہا ہوتا ہے۔ مثلاً اگر بچہ کھلونوں کے ساتھ ڈاکٹر بن کر بات کرتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اسے ڈاکٹر کا روپ اچھا لگتا ہے۔اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے۔بچہ اپنے جذبات کا اظہار اپنے کھیلنے کے انداز کے ذریعے کرتا ہے، چنانچہ اسے کسی کھلونے پر رحم آتا ہے جبکہ کسی کھلونے کو شرارتی تصور کرتا ہے، اسے مارنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ کیونکہ وہ ایسی جذباتی کیفیات سے گزر رہا ہوتا ہے جو اسے یہ سب کچھ سکھاتی ہیں، اس لیے اگر وہ کسی کھلونے کو مارے یا خراب کرے تو اس سے اس کے بارے میں پوچھا جانا چاہیے اور اس پر اس کارویہ تبدیل کیا جانا چاہیے۔
بچے کے جذبات اور دلی کیفیات کا سب سے بہتر جائزہ اس کی بنائی ہوئی تصاویر (ڈرائنگ) کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ اگربچے کو پوری توجہ نہ مل رہی ہو تو وہ اپنی والدہ کی کام کرتے ہو ئے تصویر بناتا ہے یا پھر وہ ایسی ڈرائنگ کرتا ہے جس سے اس کی ماں نے اسے گود میں لیا ہوتا ہے۔ اگر اس کا مزاج شرمیلا ہوگا تو وہ سورج کے غروب ہونے کی ڈرائنگ بنائے گا۔ بچے اس طرح اپنی دلی کیفیات کا اظہار کرتے ہیں یوں انہیں بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ لہذا جب آپ کا بچہ کچھ کھیل رہا ہو تو اس کے کھیل کے انداز پر غور کریں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ بچہ کن جذباتی کیفیات سے گزر ہا ہے۔
بچہ جو کھیل کھیلتا ہے وہ اس کے دلی جذبات کا عکاس ہوتا ہے
Nov 29, 2023