عدم تشدد کی سیاست

تحریر: جاوید انتظار 
پاکستان تحریک انصاف نے 24 نومبر کو ڈی چوک اسلام آباد میں دھرنے کی فائنل کال دی تھی۔ جس میں عمران خان کی رہائی سمیت دیگر مطالبات رکھے گئے تھے۔ کال میں مارو یا مر جاو¿ کی بات ہو رہی تھی۔ جس کی پاداش میں وفاقی حکومت نے اسلام آباد کے داخلی اور خارجی راستے بند کر کے شہریوں کو گھروں میں محصور کر دیا۔ انٹرنیٹ سروس بند کردی۔ ضلعی انتظامیہ نے سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو بند رکھنے کے احکامات جاری کر رکھے تھے۔ دوسری طرف پنجاب حکومت نے جی ٹی روڈ اور موٹر وے لوگوں کی ایک شہر سے دوسرے شہر میں آمد و رفت کے مکمل بند کر رکھے تھے۔ حکومتی طرز عمل سے عوام کو انتہائی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کاروباری سرگرمیاں رک گئیں۔جس سے سٹاک ایکسچینچ ،ڈیجیٹل بزنس اور دیگر کاروباری سرگرمیوں میں رکاوٹ اور مندی کے رحجان کیوجہ سے 200 سے 300 ارب روپے کا نقصان ہوا۔کاروباری نقصان کے ساتھ ساتھ پوری قوم ایک ذہنی تکلیف میں مبتلا رہی۔ 
عدم تشدد کی سیاست کے اصل موضوع پر آنے سے پہلے چند گزارشات قارئین کرام کی نظر کرنا چاہتا ہوں۔ راقم الحروف پاکستان تحریک انصاف فیڈرل کپیٹل کا 1997 سے دسمبر 2004 تک بانی جنرل سیکرٹری رہنے کے حوالے عمران خان کے قریبی نظریاتی ساتھیوں میں شمار ہوا کرتا تھا۔ تحریک انصاف کو پارٹی کے اندر جمعوریت کی عدم عملداری کیوجہ خیر باد کر دیا تھا۔ اسکے بعد کسی سیاسی جماعت کا کارکن نہیں رہا۔ لیکن آزاد حیثیت میں اپنی سیاسی و سماجی سرگرمیوں میں ایشو ٹو ایشو متحرک رہا۔ 2015 میں بلدیاتی انتخابات میں بحیثیت آزاد امیدوار برائے چئیرمین اور 2018 میں اس وقت کے این اے 53 سے قومی انتخابات میں حصہ لیا۔ دونوں انتخابات میں کرپٹ سیاسی نظام کے خلاف مزاحمتی سوچ کا منشور لے کر عوام سے رجوع کیا اور اپنی خدمات کا آپشن دیا۔ ملک میں رائج الوقت کرپٹ سیاسی نظام کے خلاف ہمیشہ مزاحمت کی۔ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن ، پاکستان تحریک انصاف اور جمعیت علمائے اسلام ف کے اندر جمعوریت اور احتساب کا دور دور تک کوئی نظام نہیں۔ جسکی وجہ سے ان جماعتوں کو برسر اقتدار آنے کے باوجود ملک میں جمعوریت اور احتساب کا کوئی منظم نظام نہ آسکا۔ حصول اقتدار کے لئے ہر جماعت حکومت اور اپوزیشن میں پرو اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بنکر اختیارت کے ناجائز استعمال کیوجہ سے قومی جرم کی مرتکب رہی۔ جب اسٹیبلشمنٹ انکو اقتدار میں لائی تو انکی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتی نظر آئی۔ جب اسٹیبلشمنٹ نے اقتدار چھینا تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کے بیانیہ کا لامتناعی سلسلہ شروع کردیا۔ اس ضمن میں مقتدر کرشمہ ساز ریاستی اداروں نے اپنا کھیل کھیلا۔ناچیز کا نقطہ نظر اس امر میں وضاحت کرتا رہتا ہے۔ فوج بھارت ،امریکہ ،برطانیہ و دیگر کئی ممالک میں اپنی حدود و قیود میں رہ کر امور مملکت چلاتی ہے۔ ہماری فوج کو ان سے مختلف بنانے اور قوت نما بنانے میں سیاسی جماعتوں اور انکے قیادت کا بڑا ہاتھ ہے۔ویسے بھی جب کسی ریاستی اور حکومتی ادارے میں کرپشن بے نقاب ہوجائے تو سنجیدہ اور درد دل رکھنے والی قیادت ادارے کو بدنام کرنے کی بجائے اسکے اندر موجود کرپشن کا احاطہ کر کے دور کرنے کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔جس کے لئے تمام سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر قومی اور عوامی مسائل کے باہمی بقائے باہمی بنیادی جمعوری اصولوں پر مشترکہ و متفقہ مشاورت کے لئے مکالمہ کرتی ہے۔ اپنی سیاسی مصلحتوں سے بالاتر ہو کر قومی مفاد میں ایک ٹیبل پر بیٹھکر حل تلاش کرتی ہے۔لیکن بدقسمتی سے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال میں ایسا دور دور تک عمل نظر نہیں آتا۔ جسکی وجہ ملک میں تشدد اور جارہانہ سیاست عروج پر نظر آتی ہے۔ جس میں سیاسی حکمت پر جذبات حاوی نظر آتے ہیں۔ 
مندرجہ بالا پیش منظر میں تحریک انصاف کی 24 نومبر کی فائنل کال کاغیر جانبدارانہ تجزیہ رائے عامہ کے تناظر میں کرتے ہیں۔ وزیر اعلءکے پی کے علی آمین گنڈاپور اپنے قافلے کے ہمراہ اسلام آباد پر چڑھائی کے لئے جوش و جذبے سے نکلتے ہیں۔ بانی تحریک انصاف عمران خان جیل سے ملک بھر سے تحریک انصاف کے کارکنوں کواحتجاج کی کال دیتے ہیں۔ جس میں پنجاب کی قیادت اور کارکنان کی برائے نام دلچسپی نظر آئی۔ سندھ ،بلوچستان ،گلگت بلتستان ،کشمیر سے بھی نہ ہونے کے برابر شرکت نظرآئی۔ کے پی کے میں تحریک انصاف کی صوبائی حکومت ہونے کیوجہ سے مناسب کارکنان شریک ہوئے۔ لیکن پارٹی کے چئیرمین بیرسٹر گوہر ، سیکرٹری جنرل ، صوبائی صدور اور مرکزی قائدین کو نظر انداز کر کے علی امین گنڈا پور اور بشرءبی بی احتجاجی قافلے کی قیادت کرتے نظر آئے۔ جس میں بھی حتمی طور پر قیادت کرنے کی متفرق الخیال رائے پائی جارہی تھی۔ حکومت وقت نے مشاورتی عمل اور مذاکرات کی دعوت دی۔ جس میں ڈی چوک کے متبادل سنگجانی میں احتجاجی دھرنے کی آفر دی۔ جس پر پی ٹی آئی کی قیادت کو بانی سے مشاورت کے بعد حتمی فیصلے کی رائے ہموار کرنے کے ملاقات کا موقع دیا گیا۔ جس پر خبریں گرم تھی کہ بانی پی ٹی آئی سنگجانی پر احتجاجی دھرنے کے آمادہ نظر آئے۔ لیکن بشرءبی بی نے ایک جذباتی خطاب میں کہا کہ ہم ڈی چوک میں ہی جائیں گے۔ جب تک عمران خان کو رہا نہیں کیا جائے گا۔ واپس نہیں آئیں گے۔ جبکہ وزیر داخلہ اور دیگر وفاقی وزرائ بار بار مذاکرات اور سنگجانی میں دھرنا دینے کی بات کرتے رہے۔ لیکن بشرءبی بی بضد تھیں کہ ڈی چوک ہی جانا ہے۔ جس کے لئے جذباتی انداز میں کارکنان کی ذہن سازی کی گئی۔ جس پر بلیو ایریا روڈ اور ڈی چوک کے راستے میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی۔ انتہائی اقدام کرتے ہوئے مظاہرین پر فائرنگ کر دی گئی۔ یہی کام مظاہرین کی طرف سے بھی کیا گیا۔ جس کے نتیجے میں پولیس اہلکار اور مظائرین جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ پی ٹی آئی کارکنان کی لاشوں کے بارے میں متضاد تعداد کی سرگوشیاں عوام کر رہی ہے۔ کوئی کہہ رہا ہے 10 کارکن گولی لگنے سے ہلاک ہوئے۔ کوئی تعداد ایک سو اور کوئی دو سو بتا رہا ہے۔ جبکہ حکومتی اور سرکاری ذرائع اس کے متصادم قتل ہونے والے کارکنان کی تعداد بتا رہے ہیں۔ بحرحال حقیقت تاحال پوشیدہ ہے۔ لیکن تحریک انصاف اور حکومت کے پرتشدد رویہ کی وجہ سے سیاسی کارکنان اور پولیس اہلکار جان سے گئے۔ ریاست ماں کی طرح ہوتی ہے۔ کوئی ماں اپنی اولاد پر گولیاں نہیں برساتی۔ دوسری طرف کوئی سیاسی جماعت ریاست اور حکومت سے بڑی نہیں ہوتی۔ تحریک انصاف نے ریاست کی رٹ کو چیلنچ کیا۔ ایک سیاسی کارکن کا قتل جمعوریت کے قتل کے مترادف ہے۔ ایک حکومتی اہلکار کا مظاہرین کے ہاتھوں قتل ریاست کی رٹ قتل کرنے کے مترادف ہے۔ اس ضمن میں فریفین کے طرز عمل کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ قتل ہونے والوں کے لواحقین کی حالت زار وہ جانتے ہیں یا انکا خدا جانتا ہے۔ ایک ذی شعور انسان کے پاس مقتولین کے ساتھ اظہار ہمدردی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ موجودہ ملکی سیاسی صورتحال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ سیاستدانوں کا سر جوڑ کر بیٹھنا ہے۔ڈیڈ لاک ختم کر کے ڈائیلاگ کرنا ہے۔ تشدد اور جارہانہ طرز سیاست کو ختم کر کے عدم تشدد کی سیاست کو اپنانا ہے۔ ایسا نہ کیا گیا تو ریاست حکومت سیاست اور جمعوریت کمزور سے کمزور تر ہوتی جائے گا۔ جسکے خوفناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ بقول شاعر 
محبت گولیوں سے بو رہے ہو 
وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو
گماں تم کو کہ راستہ کٹ رہا ہے 
یقیں مجھکو کہ منزل کھو رہے ہو
اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین

ای پیپر دی نیشن