ڈاکٹر ناصر خان
پاکستان اس وقت مختلف سیاسی، سماجی، اور معاشی مسائل کی لپیٹ میں ہے، اور ان مسائل کی جڑ گہری سیاسی تقسیم اور عوامی شعور کی کمی میں پنہاں ہے۔ جب تک "یوتھیا"، "پٹواری"، اور "جیالا" جیسی اصطلاحات عوام کی پہچان رہیں گی، اور "زندہ باد" اور "مردہ باد" کے نعرے سیاست کا حصہ بنے رہیں گے، تب تک ہم ایک قوم نہیں بن سکتے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ ہمیشہ سے گروہی تقسیم کی عکاس رہی ہے، جہاں نظریاتی اختلافات کی جگہ ذاتی پسندیدگی اور اندھی تقلید نے لے لی ہے۔ سیاسی وابستگیوں کو اس حد تک اہمیت دی گئی ہے کہ عوام اپنے مسائل کو بھول کر سیاستدانوں کی حمایت میں الجھ جاتے ہیں۔ اس تقسیم نے معاشرے میں عدم برداشت کو فروغ دیا ہے اور ہر اختلاف کو دشمنی میں بدل دیا ہے۔ "یوتھیا"، "پٹواری"، اور "جیالا" جیسے الفاظ نہ صرف عوام کو تقسیم کرتے ہیں بلکہ ان کے حقیقی مسائل سے توجہ بھی ہٹا دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے، عوام کی اکثریت شعور سے محروم ہے۔ انہیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاستدان عوام کے خادم ہیں، نہ کہ ان کے دیوتا۔ عوام کو یہ احساس کرنا ہوگا کہ ان کے مسائل کا حل سیاستدانوں کی اندھی حمایت میں نہیں، بلکہ ان سے سوال کرنے اور ان کا محاسبہ کرنے میں ہے۔ لیکن جب تک "زندہ باد" اور "مردہ باد" کے نعروں کو سیاسی وفاداری کا معیار سمجھا جائے گا، تب تک عوام سیاسی رہنماوں کو ان کے کاموں کا جوابدہ نہیں ٹھہرائیں گے۔
پاکستان میں سیاسی پولرائزیشن آج کے دور کا سب سے اہم اور سنگین مسئلہ بن چکی ہے، جس نے ہمارے معاشرتی ڈھانچے کو کمزور کر دیا ہے۔ اس تقسیم نے نہ صرف عوام کو گروہوں میں بانٹ دیا ہے بلکہ ان کے درمیان عدم برداشت اور نفرت کو بھی پروان چڑھایا ہے۔ اس مسئلے کو بڑھانے میں مختلف سیاسی جماعتوں کا کردار ہے، لیکن حالیہ برسوں میں اس تقسیم کو پھیلانے میں تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کا کردار نمایاں رہا ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے دوران بھی عوامی اجتماعات، جلاسوں، اور ریلیوں کا سلسلہ جاری رہا، جو کہ حکومت میں رہتے ہوئے ایک غیرمعمولی عمل تھا۔ اس وقت کے سیاسی بیانیے نے عوام کو ایک خاص سوچ کے گرد جمع کیا اور انہیں دیگر سیاسی جماعتوں اور رہنماوں کے خلاف کھڑا کر دیا۔ عمران خان کے بیانیے نے عوام کو یہ یقین دلایا کہ ان کے مخالفین نہ صرف کرپٹ ہیں بلکہ ملک کے دشمن بھی ہیں۔ اس سوچ نے اختلافات کو دشمنی میں بدل دیا اور سیاسی مخالفین کے لیے معاشرے میں جگہ تنگ کر دی۔
حکومت سے نکالے جانے کے بعد بھی عمران خان نے اپنی سیاست کو جلسوں اور احتجاجی ریلیوں کے ذریعے زندہ رکھا۔ ان اجتماعات میں عوام کو جذباتی بیانیے کے ذریعے یہ باور کرایا گیا کہ ان کی حکومت کو ایک "سازش" کے تحت ہٹایا گیا ہے۔ یہ بیانیہ نہ صرف عوام کو مزید تقسیم کرنے کا باعث بنا بلکہ قومی اداروں پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ ان حالات نے سیاسی پولرائزیشن کو ایک خطرناک سطح پر پہنچا دیا، جہاں عوام اپنے سیاسی نظریات کے لیے لڑنے مرنے کو تیار ہیں۔
یہ مسئلہ صرف تحریک انصاف یا عمران خان تک محدود نہیں۔ دیگر سیاسی جماعتیں بھی پولرائزیشن کو فروغ دینے میں برابر کی شریک ہیں۔ مگر عمران خان کا اندازِ سیاست، جو کہ جلسوں، احتجاجوں، اور جذباتی بیانیوں پر مبنی ہے، نے اس تقسیم کو ایک نئی شدت دی ہے۔ عوام کے ایک بڑے طبقے نے اپنی سیاسی وابستگی کو اپنی ذاتی شناخت کا حصہ بنا لیا ہے، اور سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی سمجھا جانے لگا ہے۔
عمران خان کی تقاریر میں استعمال کیے جانے والے نعرے اور بیانیے، جیسے "حقیقی آزادی"، "چوروں کا ٹولہ"، اور "سازش"، عوام کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے نہایت موثر ثابت ہوئے۔ ان نعروں نے ایک طرف عوام کو حکومت اور اداروں کے خلاف کھڑا کر دیا، اور دوسری طرف انہیں اس یقین میں مبتلا کر دیا کہ ان کے مسائل کا حل صرف ایک ہی شخص کے پاس ہے۔ اس طرح کا بیانیہ معاشرے میں نہ صرف پولرائزیشن پیدا کرتا ہے بلکہ عوامی شعور کو محدود کر دیتا ہے، جس سے وہ حقائق کو پرکھنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔
اب موجودہ حکومت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ ان بیانیوں کے اثرات کو کس طرح ختم کرے۔ جھوٹے بیانیے نہ صرف عوامی رائے عامہ پر گہرا اثر ڈال چکے ہیں بلکہ ان کے اثرات سے نکلنا بھی حکومت کے لیے آسان نہیں۔ عوام کے ایک بڑے حصے نے ان بیانیوں کو اس حد تک قبول کر لیا ہے کہ وہ حقائق کو سننے یا سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔
حکومت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس مسئلے کو حکمت اور تحمل سے حل کرے۔ جھوٹے بیانیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جذباتی ردعمل دینے کے بجائے، حکومت کو سچائی پر مبنی بیانیہ تیار کرنا ہوگا۔ عوام کو ان کے حقیقی مسائل اور ان کے حل کے بارے میں آگاہ کرنا ہوگا، اور یہ عمل صرف میڈیا یا بیانات تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ عملی اقدامات کے ذریعے عوام کا اعتماد جیتنا ہوگا۔
تعلیمی مہمات اور مثبت بیانیے کے ذریعے عوام کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ مسائل کا حل صرف تقاریر اور نعروں میں نہیں بلکہ عملی کارکردگی اور پالیسیوں میں ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنی کامیابیوں کو عوام کے سامنے پیش کرے، مگر اس انداز میں جو حقیقت پسندانہ اور تعمیری ہو۔ ساتھ ہی، جھوٹے بیانیوں کا پردہ چاک کرنے کے لیے شواہد پر مبنی معلومات فراہم کی جائیں تاکہ عوام کو حقائق تک رسائی حاصل ہو۔
یہ ایک طویل اور مشکل عمل ہے، لیکن اگر حکومت تحمل، حکمت، اور شفافیت کے ساتھ کام کرے تو ممکن ہے کہ وہ نہ صرف ان جھوٹے بیانیوں سے جان چھڑا سکے بلکہ عوامی اعتماد بھی بحال کر سکے۔ یہ وقت جذباتی ردعمل دینے کا نہیں بلکہ ذمہ داری اور فہم و فراست سے کام لینے کا ہے، کیونکہ صرف ایک باشعور اور متحد قوم ہی پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔
حکومت کا بنیادی فریضہ عوام کی زندگیوں کو بہتر بنانا اور انہیں سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ موجودہ دور میں جب مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے اور روزمرہ کی ضروری اشیا کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں، حکومت کو چاہیے کہ وہ فوری اور موثر اقدامات کرے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔ قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک مضبوط نظام بنایا جائے، ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، اور ضرورت مند طبقے کو سبسڈی فراہم کی جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کو روزگار کے مواقع پیدا کرنے، صنعتوں کو فروغ دینے، اور معیشت کو مستحکم کرنے پر بھی خصوصی توجہ دینی ہوگی۔ عوام کو صحت، تعلیم، اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی حکومت کی اولین ترجیح ہونی چاہیے، کیونکہ جب عوام کی ضروریات پوری ہوں گی اور ان کی زندگی آسان ہوگی، تب ہی وہ ملک کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر سکیں گے۔ حکومت کو صرف وعدوں تک محدود رہنے کے بجائے عملی اقدامات کے ذریعے عوام کا اعتماد بحال کرنا ہوگا اور انہیں یہ یقین دلانا ہوگا کہ ان کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اور موثر کوششیں کی جا رہی ہیں۔صرف عملی کارکردگی اور حقیقی ترقی ہی وہ راستہ ہے جو حکومت کو عوام کے دلوں میں جگہ دے سکتی ہے