جمعة المبارک‘ 26 جمادی الاول 1446ھ ‘ 29 نومبر2024

احتجاج کے بعد اسلام آباد کچرا کنڈی میں تبدیل‘ صفائی مہم شروع۔
احتجاج کرنے والے تو تماشا لگا کر مداری کی طرح چلے گئے‘ اسلام آباد اور دیگر شہروں کو جو کچرا کنڈی بنا کر گئے ہیں‘ اب انتظامیہ انکی چھوڑی ہوئی گندگی صا ف کرنے میں جت گئی ہے۔ اسلام آباد میں تو اس کچرے اور گندگی کے ساتھ بے شمار جوتے‘ گاڑیاں اور مظاہرین کے استعمال میں آنے والا اسلحہ آ نسو گیس کے شیل بشمول غلیل و پتھروں کےذخیرہ اور ڈنڈے بھی ملے ہیں۔ شکر ہے ابھی تک کوئی گولیوں سے چھلنی نعش نہیں ملی‘ جس کا پی ٹی آئی والے سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کر رہے ہیں مگر دکھا نہیں رہے۔ کیا لاشیں بھی بشریٰ بی بی اور علی امین کی طرح راتوں رات غائب ہو گئی ہیں۔ زندوں کو چھوڑ کر۔کیااچھا ہواگر ان شہروں کی صفائی ستھرائی پر آنے والا خرچہ اسی جماعت یا تنظیم سے وصول کیا جائے جو اس گند کو پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ اس طرح کم از کم حکومتی اخراجات میں تو کمی آئیگی۔ اسلام آباد والے تو اب اس قسم کے حالات کے عادی ہیں ورنہ کیا سبزہ و گل سے آراستہ یہ شہر خوباں صفائی ستھرائی میں بھی بے مثال شہر شمار ہوتا ہے۔ صرف شہروں کی کیا بات کریں‘ اب تو موٹروے بھی جلسے جلوسوں کی وجہ سے روک کر کھود کے رکاوٹیں کھڑی کرکے ابتر حال کو پہنچائی جا چکی ہیں۔ جی ٹی روڈ بھی اسی اکھاڑ پچھاڑ کا شکار ہے۔ کچھ مظاہرین کے ہاتھوں اور کچھ حکومتی اقدامات کے سبب ان سڑکوں کا حلیہ بگڑ چکا ہے۔ اب انکی مرمت بھی مفت تو نہیں ہونی‘ خرچہ آئیگا۔ ہر احتجاج کے بعد ملک کی یہی حالت ہوتی ہے‘ معیشت سے لے کر معاشرت تک میں زلزلہ آجاتا ہے‘ عوام کی زندگی اجیرن ہو کر رہ جاتی ہے۔ خدا جانے یہ ”جینا ہو گا مرنا ہوگا‘ دھرنا ہوگا دھرنا ہوگا‘ کا کھیل کب ختم ہوگا۔ فی الحال تو گندگی کے ڈھیر اٹھانے والا معاملہ درپیش ہے۔ 
٭....٭....٭
 کراچی میں دادا کی زبردست تربیت سے 10 سالہ پوتا ماہر موٹر سائیکل چور بن گیا۔
یہ دستور ہے کہ لوگ اپنا فن اپنے بچوں میں منتقل کرتے ہیں تاکہ انکے بعد وہ اس فن کو زندہ رکھیں۔ اس لئے مختلف فنون پر مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری رہی‘ مگر اب یہ روایت ٹوٹ رہی ہے۔ دیگر لوگ بھی یہ فنون سیکھ رہے ہیں۔ مگر آفرین ہے اس دادا پر جس نے اپنا انوکھا اور عظیم فن(یعنی گاڑیاں موٹر سائیکلیں چوری کرنے کا فن) اپنے دس سالہ پوتے کو سکھا کر اسے بھی اس فن کا ماہر بنا دیا۔ یہ بچہ جو خیر سے ”ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات“ کی عمدہ مثال بن چکا ہے۔ ایک بہترین موٹر سائیکل لفٹر یعنی چور ہے۔ جو پانچ منٹ میں لاک شدہ موٹر سائیکل کھول کر چوری کر لیتا ہے۔ بچہ سمجھ کر کسی کی اس پر توجہ بھی نہیں جاتی۔ یہ بچہ اپنے کام میں کچا نہیں‘ اپنے دادا کے ساتھ مل کر 50 بائیکس چوری کر چکا ہے بعد میں یہ موٹر سائیکلیں بلوچستان لے جاکر فروخت کرتا ہے۔ یوں اسے مارکیٹ سے بھی آگاہی ہو رہی ہے تاکہ پس مرگ دادا، وہ یہ کام جاری رکھ سکے اور چور بازار والے اس سے واقف ہوں۔ یہ بچہ باقی شرعی عیوب میں سے ابھی تک عمر کم ہونے کے باوجود نشہ بھی کرتا ہے‘ وہ بھی مہنگا اور خطرناک ترین‘ یعنی آئس پیتا ہے۔ اب اسکی گرفتاری سے کراچی والے ایک بڑے موٹر سائیکل چور کی مہارت سے محروم ہو جائیں گے۔ مگر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ دوران قید اسے دادا سے بھی زیادہ ماہر ڈاکوو¿ں‘ قاتلوں اور چوروں کی صحبت کی بدولت مزید کئی جرائم کی بھی مفت اور بہترین تربیت حاصل ہو جائے اور یہ ایک مکمل مجرم بن کر رہائی کے بعد کراچی والوں کی ناک میں دم کرتا نظر آئے۔ بہرحال دادا اور پوتے کی یہ بے مثال محبت اور اپنے فن پر کامل دسترس دیکھ کر یقین آگیا ہے کہ ہم اگر چاہیں تو کسی بھی اچھے یا برے کام میں دل لگا کر محنت کرکے عروج حاصل کر سکتے ہیں۔ فارسی کی خوبصورت کہاوت ہے 
کسبت کمال کن کہ عزیز جہاں شوئی۔
ویسے بھی کہتے ہیں کہ پوتا دادا کا دوسرا جنم ہوتا ہے۔ لگتا ہے دادا بھی ماہر چوروں میں شمار ہوتے ہونگے جبھی تو پوتا بھی استاد نکلا۔ 
مانسہرہ میں گنڈاپور کی پریس کانفرنس میں نعشوں بھرے ٹرک کا تذکرہ۔
اب مانسہرہ میں جہاں علی امین گنڈاپور سانس لینے کیلئے گئے تھے‘ پریس کانفرنس کم میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دھرنا تحریک جاری ہے‘ ٹرکوں میں بھری لاشیں آ رہی ہیں‘ سینکڑوں شہید ہوئے‘ ہزاروں زخمی ہیں۔ اتنے ہی گرفتار ہیں۔ بشریٰ بی بی کا نہیں بتایا کہ وہ کہاں ہیں۔ وہ بھی انکے ساتھ ہی فرار ہوئی تھیں۔ اس جدید دور میں جب موبائل کیمرے سے معمولی سے معمولی حرکت بھی پل بھر میں دنیا بھر میں وائرل ہو جاتی ہے‘ ابھی تک ایسی کوئی ویڈیو یا تصویر نہیں ملی نہ ہی کسی ہسپتال سے اتنی لاشوں کی اطلاع ہے۔ معمولی زخمی چلے گئے‘ اور کچھ داخل ہیں۔ وزیر اعلیٰ خیبر پی کے کو اب ان گاڑی مالکان کی فکر کھائے جا رہی ہوگی جو چھوڑ کر یہ لوگ بھاگ گئے۔ حکومت ان پر سہولت کاری کے الزام میں مقدمہ قائم کریگی۔ البتہ جوتے چھوڑ کر بھاگنے والے شاید بچ جائیں۔ کیونکہ کوئی ادارہ گھر گھر جا کر بھی جوتے چیک نہیں کر سکے گا کہ کونسا جوڑا مکمل نہیں ہے۔ جو سرکاری ملازم اور پولیس والے شناخت ہوئے ہیں‘ ان سے بازپرس ہونی ہے۔ اب تحریک والوں کو بشریٰ بی بی کے ساتھ کارکنوں کی نعشوں اور زخمیوں کو تلاش کرنا ہوگا کہ وہ کہاں ہیں کس حال میں ہیں۔ یہ بے چارے تو علی امین اور بشریٰ بی بی کے علاوہ ہر فرار ہونے والے رہنما کی گاڑی کے پیچھے یہ کہتے ہوئے دوڑتے ہیں کہ
اکیلے نہ جانا‘ ہمیں چھوڑ کر تم 
 تمھارے بنا ہم بھلا کیا جئیں گے
“ مگر بلیو ایریا سے جو گاڑیاں راکٹ کی رفتار سے اڑتی ہوئی نکلیں‘ کارکن انکی گرد کو بھی نہ چھو سکے۔ باقی خیبر پی کے کے رہنماﺅں اور ارکان اسمبلی کو بھی تلاش کرنا ہوگا کہ کہاں غائب ہیں
درگاہ اجمیر مندر پر تعمیر کی گئی‘ ہندو تنظیم کی عدالت میں درخواست۔
 اب ہندو انتہاءپسندوں کی ہمت اور شر انگیزی اتنی بڑھ گئی ہے کہ 650 سال پرانی جامع مسجد کے بعد اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی جنہیں سب احترماً خواجہ ہند بھی کہتے ہیں‘ اب ان ہندوﺅں کی نظریں انکے مزار پر ہیں۔ انہوں نے عدالت میں دعویٰ دائر کیا ہے کہ یہاں پہلے موچن مندر تھا جس پر یہ مزار بنا ہے۔ یہی بات وہ تاج محل کے بارے میں کہتے ہیں اور قطب مینار کے حوالے سے بھی وہی بابری مسجد گرانےوالا ڈرامہ ہر جگہ دہرانے کی سازش مودی حکومت کی سرپرستی میں شیوسینا والے دیگر انتہاءپسند جنونی ہندوتوا کی حامی جماعتوں کے ساتھ مل کر رچا رہے ہیں۔ کیا معلوم بنارس کی گوپی گیان والی مسجد اور متھرا کی عید گاہ کے بعد دہلی کی جامع مسجد کے حوالے سے بھی ایسی کوئی بکواس جلد سننے میں آئے۔ سراپا من گھڑت کہانیاں بنا کر یہ انتہاءپسند عدالتوں میں چلے جاتے ہیں جہاں انکی شنوائی ہوتی ہے‘ مسلمانوں کی نہ عدالتیں سنتی ہیں، نہ حکومت۔ انتظامیہ پولیس اور فوج بھی ہندو قوم کے حامیوں کے ساتھ ہے۔ مساجد کو مزارات کو مسلمانوں کی تاریخی عمارتوں کو یہ سب مل کر گرا رہے ہیں۔ اب وہاں یہ رام مندر کی طرح اپنے من مرضی کے مندر تعمیر کرکے ہندوﺅں کا دل خوش کرکے انکے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مگر بھارت میں آباد بیس کروڑ مسلمان اس سازش کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ اگر مسلم ممالک کے حکمران انکی آواز بن جائیں تو کوئی مسجد‘ مزار یا عمارت نہیں گر سکتی مگر وہ تو آخری مسجد تک کے گرنے پر بھی چپ رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن