پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ، بشریٰ بی بی نے حال ہی میں ایک انتہائی اہم اعلان کیا ہے۔ اپنے بیان میں، انہوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وفادار حامیوں کو 24 نومبر 2024ءکو ہونے والے جماعت کے اہم احتجاج میں شرکت کی دعوت دی۔ انہوں نے پختہ انداز میں واضح کیا کہ احتجاج کی تاریخ برقرار رہے گی، سوائے اس کے کہ ان کے شوہر عمران خان کی جانب سے کوئی اور ہدایت نہ آئے۔ ان کی یہ دعوت پارٹی کے وفاداروں، قانونی ماہرین، اور عدلیہ کے اراکین تک تھی، جن سے انہوں نے موجودہ حکومت کے خلاف حتمی، فیصلہ کن مقابلے میں شامل ہونے کی درخواست کی ،جسے انہوں نے ”حتمی یا مرنے مارنے“ کا اقدام قرار دیا۔ اس سے قبل بشریٰ بی بی نے سعودی عرب کے حوالے سے بے بنیاد شوشہ چھوڑ کر پاک سعوی تعلقات میں دراڈیں ڈالنے کی کوشش کی۔
میرے خیال میں انکے یہ بیانات ریاست کی خودمختاری کے خلاف بغاوت کے مترادف ہیں۔ ایسے بیان نے سفارت کاری، اقتصادی معاملات، اور عوامی شعور کے میدانوں میں گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس نے نہ صرف ملکی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے بلکہ نازک بین الاقوامی تعلقات کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے اور سماجی و اقتصادی توازن کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ میں بشریٰ بی بی کے بیان کی پیچیدگیوں کو بیان کروں گا ، ان کے مختلف حلقوں سے موصول ہونے والے متنوع ردعمل کا جائزہ لوں گا اور اسکے نتیجے میں ہونیوالے اثرات پر گہرائی سے روشنی ڈالوں گا، جو پاکستان کے سیاسی منظرنامے اور عالمی سطح پر اس کی حیثیت کے لیے اہم ہیں۔ اپنے ویڈیو خطاب میں، بشریٰ بی بی نے ایک انتہائی علامتی اہمیت کے واقعے کا ذکر کیا جو ان کے شوہر کی مقدس شہر مدینہ میں زیارت سے متعلق ہے، جہاں انہوں نے عقیدت کے اظہار کے طور پر ننگے پاﺅں مقدس زمین پر قدم رکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مقدس عمل کے بعد، سابق چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سعودی معززین کے پیغامات سے متاثر ہوئے، جنہوں نے عمران خان کی قیادت اور طرز عمل کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔
بشریٰ بی بی نے مزید کہا کہ یہ سفارتی خدشات، جو ایک انتہائی معزز حلقے سے پیدا ہوئے تھے، ان سیاسی مشکلات اور آزمائشوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو ان کے شوہر کو ان کے دورِ اقتدار کے دوران پیش آئیں۔ ان کے بقول، ان اثرات نے ان کے شوہر کے سیاسی سفر کی پر آشوب راہ کو تشکیل دیا، جو ان کی قیادت اور اس کی ملکی و بین الاقوامی سطح پر قبولیت پر گہرے نقوش چھوڑ گیا۔ کوئی بجا طور پر سوال اٹھا سکتا ہے کہ اس جوڑے نے ایسے قیمتی تحائف، جن کی مالیت کروڑوں میں ہے، قبول کرنے اور اپنی بیٹی کی شادی سعودی عرب کی شاندار سرزمین پر شاہانہ انداز میں منعقد کرنے کو کیوں مناسب سمجھا؟ کیا اس تضاد کے لیے کوئی اور مناسب اصطلاح ہو سکتی ہے، یا ہم اسے صرف منافقت کے حقیقی نام سے پکاریں؟
بشریٰ بی بی کے بیان نے مختلف ردعمل کو جنم دیا ہے، جن میں قانونی کارروائیاں بھی شامل ہیں۔ ان کے خلاف پنجاب کے مختلف علاقوں میں تین الگ الگ مقدمات درج کیے گئے ہیں۔ ان الزامات میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کے بیانات نے پاکستان کی خارجہ پالیسی، اعلیٰ سطحی معاملات، اور متعلقہ ممالک کے باہمی عوامی مفادات کی خلاف ورزی کی ہے۔ ایسی قانونی کارروائیاں ظاہر کرتی ہیں کہ ان کے بیانات کو پاکستان کے سفارتی تعلقات کے لیے ممکنہ طور پر نقصان دہ سمجھا جا رہا ہے۔
انکے بیان کے پیچھے محرکات پیچیدہ اور کئی پہلوﺅں پر مشتمل نظر آتے ہیں۔ سب سے پہلے، یہ ایک دانستہ کوشش معلوم ہوتی ہے کہ پاکستان کے داخلی سیاسی معاملات پر بیرونی قوتوں کے گہرے اثر و رسوخ کو اجاگر کیا جائے، خاص طور پر اس بات پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے کہ غیر ملکی طاقتیں کس طرح ملک کے اندرونی سیاسی منظرنامے کو تشکیل دیتی ہیں۔ سعودی عرب کو اس بیانیے میں شامل کر کے، وہ بظاہر بین الاقوامی تعلقات کی باریکیوں اور ان کے ریاست کی حکمرانی اور خودمختاری پر گہرے اثرات کو نمایاں کرنا چاہتی ہیں۔
میرے خیال میں، ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے قریبی ساتھی پر لگائے گئے مبینہ الزامات کو چھپانے کی کوشش کر رہی ہیں، اور ساتھ ہی عدلیہ پر غیر ضروری دباﺅ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ مزید برآں، ان کے اقدامات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ ایک این آراو جیسا معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، تاکہ ایسی چالوں کے ذریعے کوئی رعایت یا فائدہ حاصل کیا جا سکے۔
دوسرا، ان کے بیانات کو ایک منظم حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے جس کا مقصد پارٹی کے وفادار حامیوں اور عام عوام کے درمیان حمایت حاصل کرنا ہے۔ وہ بظاہر عمران خاں کی شبیہ کو ایک دیندار اور اصول پسند رہنما کے طور پر مضبوط کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، جو بلاوجہ بیرونی دباﺅ کا شکار ہیں۔
تاہم، ان کے بیانات تنازعات سے خالی نہیں۔ محب وطن پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب جیسے اہم اتحادی کو ملکی سیاسی مباحثے میں شامل کرنا سفارتی تعلقات کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، اور یہ ایک غیر دانشمندانہ اقدام ہے جو ممکنہ طور پر پاکستان کی خارجہ پالیسی کے مفادات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
بشریٰ بی بی کا بیان، خاص طور پر سعودی عرب کے حوالے سے، سیاسی اور ذاتی کہانیوں کے ایک پیچیدہ تانے بانے کی عکاسی کرتا ہے۔ ان کا پیغام ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں سیاسی کشیدگی اپنے عروج پر ہے اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اندرونی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہے۔ تاہم، ان کے بیانات کے سفارتی اور سیاسی اثرات انتہائی گہرے ہیں۔ سعودی عرب پاکستان کے سب سے ناگزیر اتحادیوں میں شامل ہے، جو مشکل وقت میں اہم اقتصادی مدد اور مستقل سفارتی حمایت فراہم کرتا ہے۔ اس اہم تعلق میں کسی بھی قسم کی تنقید یا دباﺅ ان تعلقات کو خطرے میں ڈال سکتا ہے، جس کے اثرات تجارت، سرمایہ کاری، اور بین الاقوامی امور جیسے اہم شعبوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ مزید برآں، سعودی عرب جیسے معزز ملک کو پاکستان کے داخلی سیاسی مباحثے میں شامل کرنا سیاسی بیانیے کو اس انداز میں تبدیل کرنے کا خطرہ رکھتا ہے جو دیگر اتحادیوں اور اسٹریٹجک شراکت داروں کو پریشان کر سکتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات پاکستان کے خارجی تعلقات کے نازک توازن کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں، جس سے عالمی سطح پر اس کی قیادت کو مزید چیلنجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ان کے بیان کے وقت کا انتخاب یقیناً غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، خاص طور پر اس وقت جب ملک کے معاشی اشاریے استحکام اور بحالی کی طرف واضح پیشرفت کی تصدیق کر رہے ہیں۔ ایسے حالات میں، پاکستان تحریک انصاف کے پیش کردہ ایجنڈے کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں، جو بظاہر ملک کی معاشی ترقی کو نقصان پہنچانے اور خیبر پختونخوا کے خطے میں دہشت گردی کے خطرے کو تقویت دینے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ان اقدامات کو دانستہ سمجھا جائے تو یہ قومی مفاد کے وسیع تر دائرے کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی پاکستان کے مقدس سفارتی تعلقات کو سیاسی جھگڑوں کے جال میں الجھا رہی ہیں۔
میرے خیال میں، بشریٰ بی بی کا بیان دانستہ طور پر ملک کے اندر بغاوت کو ہوا دینے، فرقہ وارانہ اختلافات کے بیج بونے، اور مذہب کو وقتی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش معلوم ہوتا ہے۔ میرے نزدیک، یہ بذاتِ خود ایک تباہ کن حکمت عملی ہے، جو بظاہر این آر او جیسی رعایت حاصل کرنے، ہمارے معزز اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے، اور ہمارے سب سے پختہ اتحادی، مملکت سعودی عرب، کے ساتھ اعتماد اور بھائی چارے کے دیرینہ رشتے کو خطرے میں ڈالنے کے لیے اختیار کی گئی ہے۔ اس طرح کا رویہ نہ صرف پاکستان کی داخلی ہم آہنگی کو خطرے میں ڈالتا ہے بلکہ اسکے اہم بین الاقوامی تعلقات کو بھی کمزور کرنے کی کوشش ہے۔
ریاست کے خلاف بغاوت
Nov 29, 2024