عوام سے ووٹ لینے والے عوام پر ہی عرصہ حیات تنگ کر دیں تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے۔ ”جان“ ایک بھی اُتنی قیمتی ہے جتنی درجن بھر۔ احتجاج ”بانی“ کی رہائی کے لیے تھا تو پھر ”بانی“ کی” سنگجانی“ جانے کی بات کیوں نہیں مانی گئی ؟؟ بہت افسوسناک مناظر لیے ”27نومبر“ کا سورج طلوع ہوا۔ تکلیف دہ ہے یہ لکھنا کہ ہمارے ہاں نافذ ”جمہوریت“ میں سے تمام ”سیاسی حرکیات“ کُلی طور پر ختم ہو چکی ہیں تو پھر جمہوریت کا کیا فائدہ ؟؟ ہمارا ”77سالہ“ نظام جیسا بھی رہا جس نے بھی اُس میں تبدیلیاں کیں ۔ ترامیم کیں اور کروائیں سب کچھ پوشیدہ نہیں رہا ۔ خفیہ نہیں رہا۔ بہتر ہے کہ سیاستدان سیاسی اصولوں+ جمہوریت کو اپنی اصل صورت میں بحال کریں۔ عوامی بہتری کے لیے کام کریں صرف ذاتی مفادات بینک کے تحفظ کے لیے یکسوئی ۔ اکٹھ کا مظاہرہ نہ کریں ۔ کاش ہم عقل ۔ شعور کو استعمال کرتے ہوئے حالات کا ادراک کر لیں۔ ایک طرف لاکھوں بے گناہ فلسطینی شہید کر دئیے گئے ہنوز شہادتوں کا سلسلہ جاری ہے دوسری طرف ہم ؟؟ لاٹھی ۔ ڈنڈوں ۔ بندوقوں کو تھامے کُچلنے ۔ مارنے ۔ نابود کرنے کی باتوں کے درمیان ۔ فلسطین میں اُس طرف صرف مسلمان اِس طرف دونوں جانب مسلمان ہم وطن ۔ کاش ہم ذاتی انتقام ۔ دشمنی سے نکل سکیں۔
ضروری ہے کہ ہم اپنی ذات۔ فیصلوں سے سیاست نکال دیں۔ اداروں کے خلاف زہر افشائی ختم کر دیں ۔ فضائی اسموگ کی وجوہات تو صاف ظاہر ہیں پر تمام تر سہولتوں سے لطف اُٹھاتے لوگ جب کسیلی ۔ کڑوی باتیں کرتے ۔ الزام لگاتے۔ ذاتیات کو نشانہ بناتے ہیں تویہ فضا پر چھائی اسموگ سے زیادہ زہریلے کالے ناگ ہیں ۔ اپنی ذات پر چھائی اِس اسموگ کو ختم کرنا سب سے اشد کام ہے۔ ہر وہ منصوبہ ۔ فیصلہ جو قوم ۔ملک کے مفاد میں ہے سیاست سے نکال کر نافذ کریں۔ عمل کریں تو کیسے ہم ”قرض پروگرام سے نہیں نکل سکتے ۔ ہر فرد ۔ تنظیم ۔ اداروں کو اپنے متعین حدود میں تفویض کردہ فرائض کے اندر رہ کر کام کرنے کی عادت ڈالنا ہوگی تبھی ہم سماجی سموگ پر قابو پا سکتے ہیں۔ ایک قرضدار ملک کی بجائے خودمختار ۔ خود دار قوم بن کر اُبھرنے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا اگر ہم سیاست کو اپنے ”مفادات بینک“ کے حصول کا ذریعہ بنانا چھوڑ دیں ۔
حکومت کی خواہش (سب تمام پرانی خواہشوں کے باوجود) تو اپنی جگہ ۔ پوری قوم کی دلی تڑپ ہے واقعی ایسا ہو کہ ”آئی ایم ایف“ سے جان چُھوٹ جائے۔ گزشتہ ماہ ”7ارب ڈالرز قرض“ کی منظوری کے بعد حکومت نے ”آئی ایم ایف“ سے مزید ”ایک ارب ڈالرز“ مالی معاونت مانگ لی ۔ مقصد بیرونی معاشی دباو¿ سے نکلنا بتایا گیا۔ دیگر اداروں سے بھی ”لاکھوں ڈالرز“ موصول ہوئے تھے اور ہونگے ۔ ”قرض“ ایک ایسی نحوست ہے جو سب کچھ چاٹ جاتی ہے پھر بھی قرض ادا نہیں ہو پاتا کیونکہ بنیا دی طور پر ایک انسان۔ قوم کو اپنے معاملات کو (جب وہ مسلسل گراوٹ کی طرف جا رہے ہوں) مینیج کرنا پڑتا ہے جو کہ بد قسمتی سے ہم نہیں کر پائے ۔ جب آپ خرچ کنٹرول کرنے کی بجائے اُدھار پر چل پڑیں تو پھر حتمی نتیجہ وہی ہے جس کا آج ہم سامنا کر رہے ہیں۔ ایک ذمہ دار شخص یا حکومت آمدنی بڑھانے کی تدابیر اختیار کرتی ہے ہمارا ماضی اِس سنہری اصول کی یکسر نفی کرتا ہے ہم اپنے پیٹ کو کم کھانے کی عادت ڈالنے کی بجائے ہمسایوں سے مرچ مصالحے ۔ آٹا۔ نقدی حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ شادی ۔ فوتگی والے معاملات تو ایک طرف روزانہ کِسی سیر و تفریح میں جانے کے لیے بھی قرض لینے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ ہے ہمارا معاشرہ پورا ہفتہ پورا خاندان شادی ۔ غمی پر لوگوں کے گھر جاکر بیٹھ رہتا ہے قرض اُٹھا کر جاتے ہیں اور دوسروں کو مقروض کر کے واپس آتے ہیں۔ خرچ کنٹرول کرنے کے طریقے اولین قدم میں اپنی ذات ۔ گھر سے شروع ہوتے ہیں بتایا جائے کہ اب تک کی حکومتوں نے اپنے اخراجات کیوں نہیں گھٹائے ؟؟ بے محابا حکومتی ڈھانچوں ۔ تنظیموں ۔ پروٹوکول کو برقرار رکھنے کے لیے قرضوں کی ضرورت ہے سچ یہ ہے کہ اب تک لیے گئے قرضوں کی مکمل شفاف تفصیلات قوم کے سامنے رکھ دیں اور بتائیں کہ کتنی رقوم سے کتنے منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کو نہ قرض کی ضرورت ہے نہ ہی وسائل کی کمی ۔ واقعی وزیر اعظم نے ”ریاض “دم روانگی درست کہا تھاکہ پاکستان ”فیوچر سرمایہ کاری کانفرنس “ کا حصہ بننے کے لیے پُر جوش ہے۔ درست اسلئیے کہ واقعی ہمارے پاس انگنت معدنی ذخائر (پوشیدہ و ظاہر) موجود ہیں پاکستانی قوم دنیا کی بہترین دماغ ۔ صلاحت رکھنے والی قوم ہے بس رہنما ”نیک نیت“ ملنے کی دیر ہے تو پھر سب معجزے ہوتا دیکھیں گے ۔ سر سبز باغات پھلوں سے لدے ہوئے ۔ زرعی زمین۔ سورج کے روپ میں انمول خزانہ جو تا قیامت ختم نہ ہو۔ منفرد ۔ یکتا” 5موسم“ ۔ قدرت کا لازوال تحفہ ہیں ۔ کیا سب نعمتوں کا مکمل حصول کِسی کے لیے بھی مشکل ہے۔ صرف زراعت پر ہی توجہ دیدیں تو دنیا کو اناج فراہم کرنے میں ہمارا نمبر پہلی فہرست میں آجائے ۔ بجا زراعت پر مبنی کچھ ٹھوس فیصلے کیے گئے پر ”ٹریکٹرز“ پر سیلز ٹیکس ”10سے 14“ فیصد کرنے کی تُک سمجھ نہیں آئی ۔ ”گرین پاکستان“ مہم متاثر ہو سکتی ہے۔ فیصلہ کی وجہ ”آئی ایم ایف“ کی ایک اور شرط کا پورا کرنا بتایا گیا۔ ایک اور شرط کیا؟؟ ساری شرائط پہلے سے ہی منظور کر لی گئی تھیں ۔ اگر کوئی شرط (ایسی شرط پر وہ بھی زور نہیں ڈالتے کیونکہ اُن کی نیت بھی پورا کروانے کی نہیں ہوتی تھی) نہیں مانی گئی تو وہ ہے حکومتی اخراجات کم کرنے کی ۔ سبھی اِس نکتہ پر متفق ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے سابقہ ادوار سے زراعت دوست پالیسیاں بنانے ۔ کسانوں کو مراعات دینے کی سمت کچھ خاص۔ سنجیدہ کوششیں مفقود رہیں ۔ بطور خاص ہر دور میں مقبول و نا قابل رسائی زرعی ٹیکس رہا ۔
جاگیرداروں پر کوئی بھی ٹیکس عائد نہ کر پایا جبکہ ”مالیاتی ان داتا“ کا ایک یہ بھی مطالبہ رہا ہے مگر کِسی نے بھی نہیں مانا ۔اب نفاذ کی اطلاعات تو آرہی ہیں کاش نافذ ہو ہی جائے۔