جب سے پاکستان بنا ہے اس دن سے لے کر آج تک سیاسی صورتحال خراب چلی آ رہی ہے۔ ایک فیکٹر جو بہت عمومی رہا ہے وہ یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو سےلیکر بینظیر بھٹو ، نوازشریف اور عمران خان تک عوام میں مقبول سیاسی رہنماﺅں کی تو ہمیشہ شامت آتی رہی ہے۔ اگرچہ مقبول لیڈرز میں سب سے خوش قسمت نواز شریف رہے جن کو بار بار اقتدار نصیب ہوا لیکن آج شاید سب سے زیادہ عوامی ردعمل کا سامنا بھی ان کو اور ان کی فیملی کو ہے۔ شہباز شریف کے کریڈٹ پر پنجاب کی بہترین وزیراعلیٰ شپ ہونے کے باوجود ان کی وزارت عظمیٰ کا زیادہ تر وقت پکڑ دھکڑ اور دھکم چھترول میں گزر رہا ہے۔ مریم نواز شریف سے بطور وزیراعلیٰ کوشش کے باوجود وہ کچھ ڈیلیور نہیں ہو پایا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ جس کی بنیادی وجوہات میں سیاسی انتشار اور معاشی مشکلات کے ساتھ ساتھ امور حکومت میں ان کا ناتجربہ کار ہونا بھی ہے۔ ممکن ہے اگر ان کو قدرت نے موقع دیا تو وہ دوسری بار اچھی پرفارمنس دے سکیں۔
حیرت ہوتی ہے کہ حکومت میں بیٹھ کر لوگ یہ کیوں سمجھ لیتے ہیں کہ وہ جھوٹ بولیں گے اور لوگ سچ سمجھیں گے۔ حالات تو اسکے برعکس ہیں۔ یہاں تو سچ بھی بولا جائے تو لوگ جھوٹ ہی سمجھتے ہیں اس لیے تحریک انصاف کی احتجاجی کال سے پہلے یہ کہہ کر سڑکیں بند کرنا کہ مرمت کے لیے کی جا رہی ہیں بہت ہی مزاحیہ قدم تھا اور پنجاب حکومت کی طرف سے تو آئے دن ایسے دعوے اور بیان داغے جاتے ہیں جن کی وجہ سے حکومت خود اپنی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی نظر آتی ہے۔ مثال کے طور پر کسانوں کو مافیاءکہہ دینا اور بچوں کو سکول میں دودھ فراہم کرنے کے اعلان کے بعد لاہور میں سموگ سے بچاﺅ کے لیے کاروبار بند کرنے کے احکامات صادر فرما دینا۔ یہ سوچے بغیر کہ ملک میں پہلے ہی کاروبار اللہ کی آس پہ چل رہے ہیں ، اس پہ بند بھی کیے جاتے رہیں گے تو ہر گھنٹے ملک کو کتنے کروڑ روپے کا نقصان ہوگا اس بارے کوئی سوچتا بھی نہیں۔ ایک وقت تھا جب پاکستان کے کاروباری طبقے کا سب سے زیادہ اعتماد نوازشریف اور ان کی قیادت پہ تھا آج سب سے کم بھی ان پر ہی ہے۔
دوسری طرف تحریک انصاف بھی خیر سے ہر دوسرے دن ملک کو بند کرنے پہ تلی رہتی ہے۔ ان کے پاس بھی جلاﺅگھراﺅ کے سیاسی ایجنڈے کے سوا ککھ نہیں رہ گیا۔ تحریک انصاف کے پاس آزادی کا نعرہ تو ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ آزادی کس سے۔ اسٹیبلشمینٹ سے آزادی۔۔۔ کہ جن سے اب بھی یہ مطالبہ ہے کہ باقی سب کی چھٹی کروا کے تحریک انصاف کی حکومت بنانے میں مدد کی جائے یا امریکہ سے آزادی۔۔۔ جہاں سے عمران خان کی رہائی کی خیرات مانگی جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کے پاس نہ تو کوئی نظریہ ہے نہ کوئی سنجیدہ حکمت عملی۔ بانی چیئرمین کو اپنے مخالفین کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ جن کی وجہ سے وہ اپنے کارکنان کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جب تک خود تحریک انصاف کے کارکنوں کا بھرکس نہیں نکل جاتا قیادت ان کو دوڑا دوڑا کر مرواتی رہے گی۔ جو پارٹی چھبیس سال میں اپنی شیڈو کیبنٹ نہ بنا سکے وہ کسی انقلابی تحریک کی کامیاب حکمت عملی وضع کرنے کی اہل کس طرح ہو سکتی ہے۔ فائنل کال کا رزلٹ بھی وہی نکلا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ نہ دانہ نہ پانی ، نہ بستر نہ بوریا اور چلے خیر سے انقلاب لانے۔ دونوں طرف سے جاں بحق ہونے والے انسانوں کی اموات کا صدمہ پاکستان کا صدمہ ہے۔ جنازہ تحریک انصاف کے کسی کارکن کا اٹھے یا رینجرز کے کسی اہلکار کا آنگن تو پاکستان کا ہی ہوگا۔ میں نے تو ہمیشہ کہا ہے کہ عمران خان سوائے رد ِانقلاب منصوبے کے اور کسی حوالے سے یاد نہیں رکھے جائیں گے۔
ادھر موجودہ حکومت اتنی بےبس ہے کہ عوام کو آسانی سے سانس لینے کی ایک بھی سہولت دیے بغیر چاہتی ہے کہ لوگ عمران خان کو بھول کے ان کے پیچھے چل پڑیں اور ان پر پھول برسائیں۔
کسی سیاسی جماعت اور حکومت کی اس سے بڑی ناکامی کیا ہوسکتی ہے کہ جس کے دور میں سرکاری سکول بیچ دیے جائیں ، لائبریریاں یاد ہی نہ رہیں اور تعلیم جس کے ایجنڈے میں شامل ہی نہ ہو۔
سنا ہے پاک ٹی ہاوس کے سامنے ہر اتوار کو لگنے والے پرانی کتابوں کے بازار پر کمیٹی والوں نے دھاوا بول کر سارا بازار فتح کر لیا ہے۔ بقول مولانا مایوسوی مسلسلوی ” کتابوں سے ملک میں انتشار پھیلنے کا اندیشہ تھا۔ ٹاون کمیٹی کے فی الفور ایکشن کی وجہ سے وقتی طور پر یہ خطرہ ٹل گیا ہے اور سرکاری ملازمین اور حکومتی نمائندگان نے یقین دلایا ہے کہ کتاب کے کلچر سے مستقل بنیادوں پر چھٹکارا پانے کے لیے طویل المدتی حکمت عملی وضع کی جا رہی۔ قومی اور صوبائی حکومتوں کے لیے اس طرح کی سرگرمیاں الگ سے ایک چیلنج بنی ہوئی ہیں کہ فارن فنڈنگ پر بننے والے نصاب ِ تعلیم اور غیرملکی ڈیزائن پر ترتیب دیے گئے نظام تعلیم کے کامیاب نفاذ کے باوجود ملک میں لوگوں کی اکثریت اب بھی کتاب سے جڑی ہوئی ہے۔ لوگ نئی کتابوں کو خریدنے کی قوت نہ رکھنے کے باعث پرانی کتابیں خرید کر پڑھنے سے باز نہیں آ رہے۔ اگر یہ سیاست دشمن سرگرمی ملک میں اسی طرح جاری رہتی ہے تو لوگوں کو الم غلم سوچنے سے روکنا محال ہوجائے گا اور دوسری طرف حکمران خاندانوں کے بچوں میں پیدا ہونے والے احساس کمتری سے ملک و قوم کے بہت بڑے نقصان کا اندیشہ ہے “ ۔
نہیں ہے فکر کسی کو کہ عزت ِ گلشن
زمانے بھر کی نظر میں کہیں رہے نہ رہے