شاعر کے ہاں خوبصورت الفاظ کا دوست چناﺅ اپنی تمام تر وسعت اور نیرنگی کے ساتھ کارفرما نظر آتا ہے، کسی بھی شاعر کے ہاں اگر فنِ اظہار پوری پختگی کے ساتھ موجود نہ ہو تو کلام میں وہ حسنِ کشش اور اثرانگیزی پیدا نہیں ہوسکتی۔
اکرم سحر فارانی اپنے عہد سے جڑے ہونے کے باوجود پورے کلاسیکی رچاﺅ اور شعری جمالیات سے بھی بہرہ مند ہے،انہوں نے ذاتی تجربات اور مشاہدات سے لے کر کائناتی حقائق کو وسیع ترذہنی افق کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری میں اس طرح مر قسم کیا ہے کہ وہ جمالیاتی پیرایہ اظہار کا اعلیٰ ترین نمونہ قرار پائی ہے جس کی اثر پذیری سے شاید ہی کوئی بشر بچ پایا ہو، یہی اثرپذیری نہ صرف ان کے شعری قامت کا تعین کرتی ہے بلکہ ان کو اپنے ہم عصرشعراءمیں ایک منفرد اور ممتاز مقام بھی عطاکرتی ہے۔ جس کے پاس جو کچھ ہوتاہے وہ وہی کچھ بانٹتاہے اکرم سحر فارانی ایسے انسان ہیں جو صرف اپنا ہنر اپنا فن بانٹتے ہیں۔
شاعروں کے کلام کو ان کے ذاتی حالات اور دور حاضرکے حوالے سے سمجھنا بہت اہمیت کا حامل ہے، کلام کو سمجھنے کےلئے عروض واقدار کو سمجھنا بہت ضروری ہے، اکرم سحر فارانی کے کلام میں لب ولہجے کی چاشنی، اردو کی خاص پہلو سے نکتہ آفرینی، تخلیقی واردات کی حساسیت کے ساتھ ساتھ پیچیدہ فنی حسن بھی اسلوب بیان میں نظرآتاہے،اکرم سحرفارانی کی شخصیت اور شاعری میں پھوٹتی روشنی کی کرنیں ادب کے آسمان کو کہکشاں بناتی ہےں۔
اکرم سحرفارانی نے اپنے پیکرپہ جو عاجزی کی عبااوڑھ رکھی ہے تو یقیناً خلوت کے لمحوںمیں وہ جھٹ پٹے کے منظر جسے چھٹنے سے پہلے اس دھندلکے اور پرچھائی میں گڑگڑا کر رب کائنات کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہونگے، تبھی تویہ لکھتے ہیں کہ
تجھ سے تابندہ سحر، اے جمالِ لم یزل
سورجوںکی تابشوںمیں اِذنِ کُن سے ہے ضیا
آپ کے کلام کی ایک الگ پہچان ہے،آپ کے کلام میں سرگوشی بھی مترنم ہے، پڑھنے اور سننے والوںکے دلوں پر دستک دیتی ہے اور باد بہاری کی طرح سے دوشیزہ کے گیسیوںسے کھیلتی، زمانے کی سنگلاخ چٹانوں سے بے دھڑک ٹکراتی پُرپیچ راستوں سے اٹھکیلیاں کرتی، وقت کے ہاتھوںمیں تسبیح کے دانوںکی طرح پھرتی اورماﺅںکی دعاﺅںمیں سمٹ جاتی ہے۔
لکھتے ہیںکہ
میرے لئے بھی شہرمیں جائے اماںتوہو
کوٹھی نہیں تونہ سہی کچامکاں تو ہو
ہم بھی ہوں بزم حسن میں موضوع گفتگو
اچھاگماں نہیں توکوئی بدگماں توہو
تشبیحیں،استعارے،علامات اور شعری پیکر ہی تخلیق کا حسن ہوتی ہے تواکرم سحر فارانی کے کلام میں اور دیوان سحرمیں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
اکرم سحر فارانی کی کتاب دیوان سحر کے حوالے سے ایک تقریب کاانعقاد ہوا ”دیوان سحر“پر ضیاءصاحب نے کہا کہ عالمانہ،مدبرانہ اور ناقدانہ گفتگو تومیرے بعد آنے والے اساتذہ کرام کرینگے، میں طالب علمانہ انداز میں صرف اورصرف محبت کی باتیں کروںگا۔ اکرم سحر فارانی محبت کے بندے اورمحبت کے شاعر ہیں۔ ان کے دامن میں محبت کے سوا کچھ نہیں۔ انہوں نے ساری زندگی محبت کی ہے، محبت ہی لکھی ہے اور محبت ہی بانٹی ہے۔ ان کے نزدیک محبت کا کیا مقام ہے، یہ جاننے کےلئے ان کا یہ شعر
محبت اتاری گئی اس جہاںمیں
شرئیعت سے پہلے طریقت سے پہلے
فارانی صاحب کی محبت کے جواب میں انہیں بھی ہرکسی سے محبت ہی ملی ہے جس کا ثبوت آج کی یہ محفل اور اسکے شرکاءہیں۔ یہاں ان کے استاد بھائی، ان کے دوست اور ان کے تلامذہ، سبھی حاضر ہیں۔ ہم سب یہاں ان سے اظہارمحبت کےلئے ہی جمع ہوئے ہیں، ہم سب کی طرف سے دیوان سحر کی اشاعت اور ان کے منظوم معجزات کے انگریزی ترجمے کی اشاعت پر انہیں اور ان کی انتہائی لائق شاگرد محترمہ مہ جبیں ملک صاحبہ کو دلی مبارکباد۔
فارانی صاحب کا شمار علامہ ذوتی مظفرنگری کے تلامذہ میں ہوتاہے، علامہ صاحب نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں فارانی صاحب کو اپنا خلیفہ مقررکردیاتھا۔ آپ تب ہی سے استاد شاعر کے مرتبے پر فائز ہیں اور اس منصب کے ساتھ خوب انصاف کررہے ہیں، فارانی صاحب کے استاد بھائیوںمیں سے ایک نواب ناظم میو ہیں جو اس دیوان کے ناشر ہیں۔ دوسرے ممتاز راشدلاہوری صاحب ہیں جو توقیر احمدشریفی صاحب کی میزبانی میںمنعقد ہونے والی اس تقریب کے منتظم بھی ہیں اور اس کی نظامت کے فرائض بھی ادا کرکے فارانی صاحب پر اپنی محبت کے پھول نچھاورکررہے ہیں۔فارانی صاحب کی شعر وسخن سے محبت دیوانگی کی حد تک ہے کوئی دیوانہ ہی ایسا چار سوصفحات پر مشتمل دیوان لانے کا سوچ سکتاہے آپ اپنے دیوانے پن کا اعتراف کچھ یوںکرتے ہیں۔
رہتے ہیںمیری تاک میں پتھر بدست لوگ
دیوانہ ہوں میں ہوش میں آنے کے باوجود
خلاف روایت فارانی صاحب کے دیوان میں حمدبھی ہے نعت بھی، کچھ نظمیں اور چند قطعات بھی مگریہ سب غزل کی ہی ہیت میں ہیں۔ یوں انہوں نے روایت سے بغاوت بھی کی ہے اور اس کی پاسداری بھی۔ یہی انداز ان کے سارے کلام میں نظرآتاہے۔ فارانی صاحب بڑے ہرجائی شاعر ہیں۔ خالق سے لے کر اس کے محبوب نبی اور اس کی مخلوق تک، ہرکسی سے محبت کا دم بھرتے ہیں۔ خدا کے ساتھ ساتھ بتوں سے بھی آشنائی ہے۔حمدونعت کے علاوہ ان کی غزلوںمیں بھی حمدونعت وسلام کے اشعار کہیں کہیں مل جاتے ہیں ایسا ہی ایک شعر پیش خدمت ہے۔
آتے نہیں ہیں گھرمیں اجازت لئے بغیر
کتنا ہے قدسیوںکوبھی سادات کا لحاظ
قدسیوںکے بعد اب تھوڑا سا ذکر ان حسین بتوں کا ہوجائے جن کے بغیرتصویرکائنات بے رنگ نظرآتی ہے۔ حسن عشق کے معاملات بیان کرتے ہوئے فارانی صاحب کے قلم میں شوخی کا عنصرنظرآتاہے اس میدان کے آپ شاہسوار ہیں یہ میں نہیں کہہ رہا فارانی صاحب خود فرماتے ہیں
عکس حسن نازنیں میری بیاض
عام لوگوں ہی نہیں میری بیاض
اس کے دامن میں ہیں کچھ پریوںکے نام
ان کی یادوںسے حسیں میری بیاض
دیوان سحر
Nov 29, 2024