دہشت گردوں کے افغانستان میں تربیتی کیمپ

ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسی کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال جدید امریکی اسلحہ تک رسائی سے لاتعلقی اور ان کے افغانستان میں موجود ٹھکانوں، تربیتی مراکز کی موجودگی سے افغان عبوری حکومت کے انکار کے باوجود افغانستان سے دہشت گردوں کی آمد، پاکستان کے صوبوں بلوچستان و خیبرپختوا کے قبائلی اضلاع میں خود کش دھماکوں اور دہشت گردی کی ہولناک کارروائیوں کا سلسلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ ان میں بتدریج اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ حالانکہ پاک افغان سرحدپر نصب حفاظتی باڑ کو چند مخصوص مقامات سے کاٹ کر وہاں سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوششوں کے دوران آئے روز مسلح دہشت گردوں کے مارے جانے کی اطلاعات آتی رہتی ہے، اس کے باوجود افغان عبوری حکومت کا اس میں اپنے کردار سے انکار پوری پاکستانی قوم کے لیے حیرانگی اور تکلیف کا باعث ہے۔ اوپر سے افغانستان کے اندر سے پاکستان کے خلاف جاری پروپیگنڈا ظاہر کرتا ہے کہ خون ریزی کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر پاکستان کے خلاف تضحیک آمیز بیانات پر مبنی ویڈیوز کی موجودگی درحقیقت پاکستانی عوام میں بے چینی اور مایوسی پھیلانے جیسی کوششیں بھی اس جنگ کا حصہ ہیں پاکستان دہشت گردی کی صورت جس کا طویل عرصہ سے شکار چلا آرہا ہے۔ 
افغانستان بھلے پاکستان دشمنی سے انکار کرتا رہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے فروری 2024ء میں جاری کردہ جائزہ رپورٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ دہشت گرد کالعدم تنظیموں کی افغانستان میں آزادانہ نقل و حرکت، دہشت گردی کے تربیتی کیمپوں کی موجودگی اور دہشت گردوں کو جدید امریکی اسلحہ کی فراہمی کے علاوہ انھیں مالی معاونت جیسی حاصل سہولتیں ہیں۔ افغان حکومت کی طرف سے اجازت اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں اور افغان عبوری حکومت کی مرضی سے ہی القاعدہ افغانستان میں اپنا مکمل اثر ورسوخ بحال رکھے ہوئے ہے جبکہ فی الحال یہ سارا بندوبست پاکستان کے خلاف ہے۔ تاہم مذکورہ دہشت گرد تنظیمیں اس قابل ہے کہ القاعدہ کی ضرورت کے تحت وہ مغربی ممالک میں دہشت گردی کو بروئے کار لا سکیں۔ رپورٹ کے مطابق القاعدہ کے زیر انتظام افغانستان میں پاکستانی سرحد سے ملحقہ افغان صوبوں میں دہشت گردوں کی تربیت کے لیے اٹھ کیمپ کام کررہے ہیں۔ لیکن ان میں سے صوبہ کنڑ میں قائم ایک کیمپ ایسا ہے جہاں صرف خود کش بمبار تیار کیے جاتے ہیں۔ مذکورہ کیمپ کالعدم دہشت گرد جماعت تحریک طالبان پاکستان کے زیر کنٹرول ہے۔ جو ابھی تک صرف پاکستان میں خود کش دھماکوں اور پاک فوج کو نشانہ بنانے تک محدود ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کے لیے یہ امر قابل تشویش کا باعث ہے کہ ٹی ٹی پی دہشت گردی اور خود کش دھماکوں کے حوالے سے اپنی استعداد کے مطابق جب چاہے کسی بھی مغربی ملک میں کاروئی عمل میں لا سکتی ہے۔ 
مذکورہ رپورٹ کو افغان عبوری حکومت نے الزام اور بے بنیاد الزام قرار دے کر مسترد کردیا تھا جس کے ردعمل میں اقوام متحدہ کی جائزہ کمیٹی نے پاکستان کی طرف سے افغان عبوری حکومت سے کیے گئے بار بار احتجاج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ افغان عبوری حکومت ٹی ٹی پی کے ساتھ گہرے مراسم رکھتی ہے۔ ان کے یہ باہمی مراسم ظاہر کرتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت ٹی ٹی پی کی پاکستان کے خلاف اختیار کی گئی پالیسی سے اتفاق کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغان عبوری حکومت تحریک طالبان پاکستان کے لیڈر نور ولی محسود کو کنڑ میں ماہانہ 500 ڈالر تک وظیفہ ادا کرتی ہے۔ یہ رقم اس دیگر مراعات کے علاوہ ہے جو پاکستان میں متحرک کالعدم دہشت گرد تنظیموں کو افغانستان میں حاصل ہے۔ علاوہ ازیں افغان شہریوں کی بڑی تعداد میں ٹی ٹی پی کا حصہ بننے اور ان کے پاکستان کے خلاف استعمال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی جائزہ کمیٹی نے روپورٹ میں موقف اختیار کیا ہے کہ یہ سب افغان عبوری حکومت کی منشا کے بغیر ممکن نہیں۔
یہاں 30جنوری 2023ءکو پشاور میں پولیس لائن مسجد خود کش حملے میں افغانستان سے آئے ہوئے افغان شہری کو بطور خود کش بمبار پشاور میں پناہ دینے اور اسے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد میں موجود نمازیوں کو نشانہ بنانے کے لیے سہوت کار کا کردار ادا کرنے والے پولیس کانسٹیبل محمد ولی کا ذکر بے حد ضروری ہے جس نے حال ہی میں گرفتاری کے بعد کیے گئے انکشافات میں بتایا کہ وہ کس طرح فیس بک کے ذریعے جماعت الاحرار کے ایک جنید نامی ایجنٹ کا شکار ہو کر پیسوں کے لالچ میں افغانستان پہنچا جہاں اسے صوبہ کنڑ جماعت الاحرار کے مرکز لے جا کر دہشت گرد کمانڈر صلاح الدین اور مکرم خراسانی سے ملاقات کرانے کے بعد اس کی ملا یوسف کے ہاتھ پر بیت کرائی گئی۔ جماعت الاحرار کا حصہ بن جانے کے بعد اسے بھاری رقم تحفہ میں دے کر پاکستان میں دہشت گردوں کے سہولت کار کے طور پر واپس پشاور بھیجا گیا۔ پشاور پہنچ کر اس نے دیگر بہت سی کارروائیوں کے علاوہ پشاور پولیس لائن مسجد میں کیے گئے خود کش دھماکے میں اپنے بھرپور کردار کا بھی اعتراف کیا۔ 
پولیس کانسٹیبل محمد ولی کا اقراری بیان در حقیقت افغانستان میں افغان عبوری حکومت کے تعاون سے القاعدہ کی سرپرستی میں قائم دہشت گردوی کے مراکز اور کالعدم دہشت گرد جماعتوں کو پاکستان میں جدید امریکی اسلحہ کے ساتھ معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے، پاک فوج کی چوکیوں پر حملوں اور خود کش دھماکوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کی اس طویل رپورٹ کی تصدیق ہے جس میں کسی بھی طرح کی لگی لپٹی رکھے بغیر نہ صرف افغان عبوری حکومت کی پاکستان مخالف خارجہ پالیسی کا پردہ چاک کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس جدید امریکی اسلحہ کابھی ذکر کیا گیا ہے جو امریکی فوج 15 اگست 2021ءکی شب اچانک کابل میں بلگرام ایئر بیس کے نام سے قائم امریکی چھاو¿نی میں چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں افغانستان سے نکل گئی۔ امریکا میں اراکین کانگریس آج بھی جو بائیڈن حکومت سے بھی سوال کر رہے ہیں کہ افغانستان چھوڑتے وقت امریکی فوج نے 83 ارب ڈالر کا جدید اسلحہ بلگرام ایئر پورٹ پر چھوڑتے ہوئے یہ کیوں نہیں سوچا کہ ان کے جانے بعد مذکورہ امریکی اسلحہ افغانستان میں موجود ان دہشت گرد گروہوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے جو اسے مستقبل میں عالمی سطح پر دہشت گردی کے لیے استعمال میں لا سکتے ہیں۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن