وزیراعظم شہبازشریف نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں تحریک انتشار نے فساد برپا کیا‘ ملک افراتفری اور خونریزی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ فساد اور انتشار کی سیاست کی حوصلہ شکنی ناگزیر ہے‘ فسادیوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ 9 مئی کے ملزموں کو عدالتیں بروقت سزائیں دیتیں تو ایسے واقعات دہرانے کا سوچنے کی بھی کسی کو جرات نہ ہوتی۔ انکے بقول سیاست میں فتنہ گری کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایک شخص نے اپنے مفاد کیلئے ملک کو داﺅ پر لگا دیا۔ آج پہلی بار ہم اور فوج کے سپہ سالار یک جان دو قالب ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بہترین حکمت عملی کے ذریعے انتشار پھیلانے کیلئے آنے والوں کو روکا اور عوام کو سکون میسر آیا۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ فساد کی وجہ سے پاکستان بھر بالخصوص اسلام آباد میں معیشت کو نقصان پہنچا۔ کاروبار اور دکانیں بند تھیں‘ تاجر دہائیاں دے رہے تھے‘ فیکٹری مالکان‘ دیہاڑی دار اور مزدور سب پریشان تھے‘ ہسپتالوں میں مریضوں کو مشکلات کا سامنا تھا اور نظام زندگی معطل ہو چکا تھا۔ وزیراعظم کے بقول ان فسادیوں کی وجہ سے سٹاک ایکسچینج میں ایک دن میں چار ہزار پوائنٹس کی کمی ہوئی۔ یہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے دشمن بن چکے ہیں۔ گزشتہ رات امن بحال ہونے کے بعد سٹاک ایکسچینج 99 ہزار تک پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد میں شنگھائی تنظیم کے رکن ممالک کے سربراہان کی آمد اور پھر سعودی وفد کے دورے کے موقع پر اودھم مچایا گیا اور تخریب کاری کی گئی۔ یہ لوگ غیرملکی اسلحہ لے کر آتے ہیں اور بے گناہ شہریوں کو تنگ‘ زخمی اور شہید کرتے ہیں۔ حالیہ واقعات میں اسلام آباد پولیس کے اہلکار کو شہید کیا گیا اور بے شمار زخمی ہوئے۔ شہبازشریف نے باور کرایا کہ ہمیں باہمی مشاورت اور صلاح مشورے سے سخت فیصلے کرنا پڑیں گے۔ ہمیں پاکستان کی معیشت کو بچانا ہے‘ ترقی دینی ہے اور ملک کو خوشحال بنانا ہے۔ حکومت‘ مقننہ اور تمام اداروں کو مل کر فیصلہ کرنا ہے کہ ہمیں ان فسادیوں اور ملک دشمنوں کا ساتھ نہیں دینا چاہیے۔ انکے بقول ہر روز میدان جنگ لگے گا تو توانائی کہاں خرچ ہوگی۔ انہوں نے اسلام آباد پولیس‘ رینجرز‘ پنجاب پولیس اور سندھ پولیس سمیت قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے مل کر فسادیوں کے تازہ ترین حملے کو ناکام بنایا اور ان سے اسلام آباد خالی کرایا۔
بے شک آئین پاکستان کے بنیادی حقوق سے متعلق چیپٹر میں شہری آزادیوں کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ آئین میں اظہار رائے اور جماعت سازی کی آزادی بھی حاصل ہے‘ شہریوں کو اپنے مسائل کے حل کیلئے آواز اٹھانے کے معاملہ میں سڑکوں پر آنے کا حق بھی حاصل ہے اور اسی طرح بنیادی حقوق کے اس چیپٹر میں کاروبار کے تحفظ اور تعلیم‘ صحت‘ روزگار کی سہولتوں کے حصول کا حق بھی ودیعت کیا گیا ہے تاہم ہر آزادی اور کوئی بھی حق قانون کے دائرے میں رہ کر ہی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی شہری کے کسی اقدام سے دوسرے شہری کی آزادیاں اور حقوق متاثر ہوں تو لامحالہ ایسا اقدام قابل گرفت ٹھہرتا ہے۔ اسی طرح ریاست اور ریاستی اداروں کی توقیر کی پاسداری ہر شہری کی ذمہ داری ہے اور کسی شہری کے انفرادی فعل یا کسی گروہ اور جماعت کے پلیٹ فارم سے اٹھائے گئے کسی اقدام سے ملکی سلامتی اور قومی مفاد پر زد پڑتی ہو تو آئین و قانون کے تحت ایسے اقدامات قابل گردن زدنی ہوتے ہیں۔ آئین کی دفعہ 19 کے تحت اظہار رائے کی آزادی بھی شتربے مہار نہیں ہوسکتی۔ اگر کسی معاشرے میں جس کی لاٹھی اسکی بھینس کا تصور راسخ ہو جائے تو اس معاشرے کا شیرازہ بکھرنے میں دیر نہیں لگتی۔ شیرازہ بندی کیلئے ہی تو قوانین وضع کئے جاتے ہیں جن کے ماتحت ملک و مملکت اور ریاستی‘ انتظامی اداروں کے معاملات چلائے جاتے ہیں اور چو بھی قانون ہاتھ میں لینے کے جرم کا ارتکاب یا اسکی کوشش کرتا ہے تو اس کا قانون کی گرفت میں آنا لازمی تقاضا بن جاتا ہے۔
اس تناظر میں اگر ہم اپنی معاشرت کا جائزہ لیں تو یہاں پر زور آور طبقے یا شخص کے ہاتھوں قانون کی دھجیاں بکھرتی نظر آتی رہی ہیں۔ اگر یہاں ادارہ جاتی سطح پر ڈسپلن قائم ہوا ہوتا اور قومی سیاسی‘ دینی ادارہ جاتی قیادتوں نے آئین و قانون کی پاسداری کے معاملہ میں خود کو مثال بنایا ہوتا تو معاشرے میں کسی بدچلنی اور انتشار وخلفشار کا کہیں تصور تک نہ ہوتا۔ یہاں جب عوام کو ادارہ جاتی سطح پر اور قومی قیادتوں کی جانب سے آئین و قانون کی بے توقیری ہوتی نظر آتی ہے تو وہ بھی خود کو اسی کلچر میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی آج کے نظر آتے انتشار و خلفشار کی اصل وجہ ہے۔
بدقسمتی سے گزشتہ ایک دہائی سے ہماری سیاست میں بلیم گیم اور بدتہذیبی کا کلچر درآیا ہے جس کا بانی پی ٹی آئی کے قائد عمران خان کو قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ انکی 2011ءسے اب تک کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو اس میں تہذیب و شائستگی اور ادب آداب کا شائبہ بھی نظر نہیں آئیگا۔ اسکے برعکس اس پارٹی کے پلیٹ فارم پر ہر سیاسی مخالف کی عامیانہ انداز میں پگڑی اچھالنا اور ادارہ جاتی سربراہوں کے نام بگاڑ کر ان سے مخاطب ہونا‘ عوامی مقبولیت میں اضافے کی سیڑھی سمجھ لیا گیا جبکہ اس سیاست میں انتہاءیہ ہوئی کہ عمران خان نے عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے اقتدار سے فارغ ہونے کے بعد ملک کی آزادی و خودمختاری اور اسکے تحفظ کے ذمہ دار اداروں کو بھی اپنی ذات سے ہیچ سمجھنا شروع کردیا اور انکی پارٹی کے اندر بھی یہ چلن اختیار کرلیا گیا کہ اگر ہمارا قائد اقتدار میں نہیں تو پھر ہمارے لئے پاکستان اور اسکے اداروں کی بھی کوئی اہمیت نہیں جبکہ خود عمران خان نے بھی پاکستان اور اسکی فوج کے تین ٹکڑے ہونے کی بات کرکے اپنی ذات سے اوپر ہر چیز کی نفی کے راستے پر اپنے پارٹی ورکروں کو لگا دیا۔ گزشتہ سال 9 مئی کے واقعات اسی سوچ کا شاخسانہ تھے جبکہ پی ٹی آئی کی اب تک کی سیاست یہی گل کھلا رہی ہے جس میں پی ٹی آئی کے بانی قائد کی جانب سے 24 نومبر کی فائنل کال کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پی ٹی آئی کے کارکن بالخصوص خیبر پی کے سے آنے والے جتھے جن میں افغان شہری بھی شامل تھے‘ 9 مئی والے واقعات کو دہرانے کیلئے باقاعدہ اسلحہ‘ گولہ بارود‘ پتھروں‘ ڈنڈوں سے لیس ہو کر اسلام آباد پر دھاوا بولنے کی نیت سے آئے جس کی سکیورٹی اداروں نے بھی تصدیق کی اور سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیو کلپس بھی اس مسلح جتھہ بندی کی گواہی دے رہی ہیں۔ اسلام آباد انتظامیہ کے مطابق 24 نومبر کی رات ڈی چوک میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے کئے گئے اپریشن میں جہاں افغان باشندوں سمیت 954 پی ٹی آئی ورکروں کی گرفتاریاں عمل میں آئیں وہیں انکے قبضے سے 43 خطرناک ہتھیار بھی برآمد ہوئے جبکہ ڈی چوک تک آتے آتے ان مسلح جتھوں نے پولیس اور رینجرز پر حملے کرکے چار سکیورٹی اہلکاروں کوشہید اور دو سو کے قریب اہلکاروں کو زخمی کیا۔ اس مسلح جتھہ بند احتجاج میں اسلام آباد انتظامیہ کے بقول 164 سی سی ٹی وی کیمرے توڑے گئے‘ سکیورٹی اداروں کی بیسیوں گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ مجموعی طور پر ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا اور افراتفری پیدا کرنے والے ایسے احتجاجوں کے باعث ملک کی ساکھ کو الگ نقصان پہنچا چنانچہ ریاستی اتھارٹی کی جانب سے سکیورٹی اداروں کے ذریعے مسلح احتجاجیوں کو منتشر کرنا مجبوری بن گیا۔ اس عمل میں سکیورٹی اداروں کی جانب سے مکمل احتیاط اور صبر و تحمل سے کام لیا گیا تاکہ پی ٹی آئی کو لاشوں پر سیاست کرنے کا موقع نہ مل سکے۔ اگرچہ پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے متعدد پارٹی کارکنوں کے جاں بحق ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے مگر اب تک کسی ایک لاش کا بھی کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا۔ اب یقیناً پی ٹی آئی کی قیادت کے پاس اپنی پارٹی کی ازسرنو صف بندی کا موقع ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی انتشاری فسادی سیاست سے رجوع کرے اور قومی افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کرکے سلجھاﺅ کی طرف آئے بصورت دیگر پی ٹی آئی اور اسکی قیادت کیلئے مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔