’’سپیڈ کی لائٹ‘‘ والا انقلاب

لیجئے جناب، پی ٹی آئی کے ایک سے دوسرے سرے تک کم از کم ایک بات پر اتفاق رائے تو ہو گیا۔ یہ کہ پارٹی کی پوری قیادت بک چکی ہے، غدّار اور میر جعفر ہے، غنیم سے ملی ہوئی ہے۔ زیادہ تر نے اپنے لیڈروں کیلئے ’’کمپرومائزڈ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے بعض ٹی وی اینکرز اپنی گندمی اور نیم گندمی رنگت کے باوجود خود کو ’’انگریز‘‘ یا امریکی انگریز باور کرانے کی سعی میں زور لگاتے نظر آتے ہیں، ان کے الفاظ میں پارٹی لیڈر ’’کھام پھرومائزڈ‘‘ ہے۔ بہرحال کمپرومائزڈ ہو یا کھامپرومائزڈ ، عوامی زبان میں معنے ایک ہی ہیں، بکی ہوئی قیادت۔ 
اور یہ بھی نہیں کہ قیادت کا بیشر حصہ، پارٹی اتفاق رائے کے مطابق ساری کی ساری۔ پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا سارے کا سارا یہی بیانیہ نشر کر رہا ہے۔ عوام الناس میں مشہور ہے کہ یہ دراصل ’’جھوٹ بریگیڈ‘‘ ہے۔ ہو گا، لیکن کم از کم اس کی تازہ ریسرچ تو سچ ہی لگتی ہے۔ 
قیادت اگر یہی ہے جو بیان کی گئی ہے تو پارٹی کیڈرز اور اس کے سوشل میڈیا کو مرشد کی بصیرت اور وڑن کے قربان جانا چاہیے کہ: 
تمہی کہو، یہ انتخاب کس کا تھا۔ 
یعنی کس نے چن چن کر یہ ہیرے موتی قیادت کی مسندوں پر بٹھائے۔ مرشد کی بصیرت اور بصارت کے کیا کہیئے، وہ تو دیوار کے اس پار بھی دیکھ لیتے ہیں۔ 
____
پی ٹی آئی سوشل میڈیا کے ایک سے زیادہ آئوٹ لیٹس نے تو حد کر دی۔ خود مرشدانی جی پر سوال اٹھا دیا۔ کہا، اب پتہ چلا، اچانک ہی رہا کر کے کیوں پختونخواہ جانے کی اجازت دے دی۔ پشاور کے سی ایم ہائوس میں بیٹھ کر پارٹی پر نقب لگائی۔ سنگجانی جا کر دھرنا دینے کی ہدایت خود مرشد نے دی تھی، مرشدانی جی نے سبوتاڑ کر دی، نتیجہ دیکھ لو۔ پارٹی ورکرز کا سارا حوصلہ جو چند روز پہلے تک اوج ثریا سے بھی اوپر محو پرواز تھا، اب پاتال کی گہرائیوں میں غوطہ زن ہے۔ ادھر پارٹی قیادت کے اجلاس میں بھی مرشدانی پر اعتراض ہوئے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق شرکائے اجلاس میں کسی ایک نے بھی مرشدانی کا دفاع نہیں کیا۔ کاش اعتزاز احسن بھی اجلاس میں ہوتے اور صفائی دینے کا حق ادا کرتے۔
____
یاد آیا جب پارٹی کی حکومت تھی اور ہر شعبے میں تباہ کاری اور بربادی کے جھنڈے گاڑے جا رہے تھے تو پی ٹی آئی کے ’’نصب شدہ‘‘ اینکر پرسن مرشد کی صفائی ان الفاظ میں دیا کرتے تھے کہ مرشد تو بہت قابل، بہت ایماندار ہے لیکن وہ کیا کرے، اس کی پارٹی کے لیڈر، کابینہ کے ارکان نالائق اور کرپٹ ہیں۔ مرشد کا کوئی قصور نہیں۔ 
یہ ’’راز‘‘ انہی دنوں تازہ تازہ کھلا تھا کہ مرشد تو دیوار کے پار بھی دیکھ لینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 
اور اب تو مرشدانی پر بھی اعتراض ہو گیا حالانکہ انہی مرشدانی جی کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ انہیں براہ راست آسمانوں سے کشف ہوتا ہے، وہ ڈیوائن ڈاکٹرائن لے کر آئی ہیں۔ ان کے موکل انہیں ہر شے کی حقیقت بتا دیتے ہیں، کل کیا ہو گا، یہ بھی بتا دیتے ہیں۔ 
حیرت ہے، موکلوں نے یہ نہیں بتایا کہ 26 نومبر کی رات انہیں ڈی چوک سے اس عالم میں بھاگنا پڑے گا کہ نہ ہاتھ باگ پر ہو گا نہ پا رکاب میں۔ گنڈاپور کے ہمراہ ایسے بندوق کی گولی کی طرح بھاگیں کہ سیدھے مانسہرہ جا کر دم لیا۔ گنڈاپور نے کچھ گھنٹے دم لینے کے بعد پریس کانفرنس بھی کر ڈالی، مرشدانی جی کو دم لینے میں ابھی کچھ دن لگیں گے۔ فی الوقت وہ خاموشی کا اعتکاف بیٹھ گئی ہیں۔ 
____
خبریں افواہوں کی صورت میں گرم ہیں کہ خیبر پی کے میں گورنر راج لگا دیا جائے گا۔ یعنی صوبے کی حکومت کنڈی کے سپرد ہو جائے گی۔ 
اس صورت میں گنڈا پور کا کیا بنے گا؟۔ شاید انہیں وفاق میں کوئی وزارت مل جائے۔ شاندار خدمات کے اعتراف میں۔ ایسا ہوا تو کون سا قلم دان ملے گا؟۔ شاید فروغِ پیداوار اسلامی شہد کا نیا محکمہ بنایا جائے۔ 
____
پی ٹی آئی کے بہت سے سوشل میڈیا آئوٹ لیٹ دو دن سے جہاں پارٹی کی ’’کھام پھرومائزڈ‘‘ قیادت کو توپ دم کئے ہوئے ہیں، وہاں پنجاب کو بھی نشانے پر رکھا ہوا ہے کہ یہاں سے کوئی نہیں نکلا۔ اسی سوشل میڈیا کی اطلاع تھی کہ پارٹی نے 35 ہزار جانباز کارکن پہلے ہی اسلام آباد پہنچا دئیے ہیں، جونہی کے پی والا جلوس اسلام آباد پہنچے گا، یہ 35 ہزار بھی اپنی کمین گاہوں سے برآمد ہوں گے اور پھر یوں چٹکی بجاتے انقلاب آ جائے گا۔ 
پی ٹی آئی والے پنجاب کو جتنی چاہے ملاّحیاں سنا دیں، کوسنے دے دیں لیکن پہلے یہ عقدہ تو حل کریں کہ یہ 35 ہزار کہاں چھپے تھے۔ لگتا ہے جس کھوہ میں پناہ لی تھی، اس کے دہانے پر کوئی چٹان آ گری، باہر آنے کا راستہ بند ہو گیا، یہ 35 ہزار اس چٹان کو ہلاتے ہی رہ گئے اور انقلاب جلا ہوا کنٹینر چھوڑ کر واپس کے پی بھاگ نکلا۔ 
____
اے ایف پی عالمی خبررساں ادارے اور الجزیرہ کے رپورٹروں کی رپورٹنگ کے مطابق اسلام آباد پہنچنے والے انقلابیوں کی تعداد دس ہزار تھی۔ 
کمال ہے، ہمیں تو بتایا گیا تھا کہ 25 ہزار ہیں۔ یعنی اعتماد کا خسارہ پورے پندرہ ہزار کا تھا؟۔ 
خیر، یہ پیشگی پہنچائے گئے 35 ہزار بھی کھوہ سے برآمد ہو جاتے تو یہ دس ہزار نہ رہتے، 45 ہزار ہو جاتے۔ برا ہو اس کھوہ کا جس نے انہیں باہر آنے ہی نہیں دیا۔ کھوہ تھی یا خلائی بلیک ہول کہ جو بھی اندر گیا، پھر باہر نہ آیا۔ 
____
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ تاریخ میں کوئی انقلاب اتنی تیزی سے نہیں بھاگا جتنا کل دیکھا۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آ سکی کہ عظمیٰ بخاری حیرت ظاہر کر رہی ہیں یا انقلاب کی تیز رفتاری کا اعتراف کرتے ہوئے اسے خراج تحسین پیش کر رہی ہیں۔ 
دراصل مرشد کو تیز رفتاری بہت پسند ہے۔ جب وزیر اعظم تھے تو ’’سپیڈ کی لائٹ‘‘ والی رفتار کو آئیڈیل قرار دیا کرتے تھے۔ شاید 26 مئی کے انقلاب کی تیز رفتاری میں مرشد کی اسی خواہش کے احترام کا عمل دخل ہو۔ 
بہرحال، یہ انقلاب ’’سپیڈ کی لائٹ‘‘ جتنا تیز رفتار تو بالکل نہیں تھا۔ میدان خالی کرتے کرتے پورے 20 منٹ لگے۔

ای پیپر دی نیشن