پی ٹی آئی: حامد رضا کور کمیٹی، سلمان اکرم سیکرٹری جنرل شپ سے مستعفی، بلوچستان اسمبلی میں پابندی کی قرارداد منظور

اسلام آباد؍ راولپنڈی (اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نوائے وقت رپورٹ) پی ٹی آئی رہنماؤں کی اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی درخواست منظور نہ ہوئی۔ سلمان اکرم راجہ نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے لیے جیل حکام سے رابطہ کیا تاہم انہیں ملاقات کی اجازت نہیں ملی۔ ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے بھی بانی پی ٹی آئی سے فوری ملاقات کرانے کے لئے سپرنٹنڈنٹ اڈیالہ جیل کو درخواست کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے پچھلی تاریخ پہ مجھے مطلع کیا کہ ان کے ساتھ پھر سے غیر انسانی سلوک کیا گیا۔ ملاقات کرائی جائے۔ جیل ذرائع کے مطانق ملاقاتیوں کو جواب دیا گیا  کہ بانی پی ٹی آئی جیل کی تحویل میں نہیں بلکہ راولپنڈی پولیس کی حراست میں ہیں۔ ان سے ملاقات کے خواہاں افراد راولپنڈی پولیس سے رابطہ کریں۔ عمران خان جسمانی ریمانڈ پر راولپنڈی پولیس کی حراست میں ہیں اور ان کے سیل کو راولپنڈی تھانہ نیو ٹاؤن کا حصہ قرار دیا گیا تھا۔ ان سے ملاقات کرانے یا نہ کرانے کا اختیار جیل انتظامیہ کے پاس نہیں۔ علاوہ ازیں سربراہ سنی اتحاد کونسل صاحبزادہ حامد رضا نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سیاسی کمیٹی اور کور کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ صاحبزادہ حامد رضا بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرکے قومی اسمبلی سے استعفیٰ پیش کریں گے۔ ذرائع کے مطابق صاحبزادہ حامد رضا نے 24  نومبر کے احتجاج کے پیش نظر پارٹی تنقید اور اختلافات کے باعث مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔ علاوہ ازیں اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا نے بھی پارٹی عہدے سے استعفیٰ دیا تھا۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے سلمان اکرم راجہ کے استعفے کی تصدیق کردی ہے۔ تاہم استعفیٰ ابھی تک منظور نہیں کیا گیا۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے ستمبر میں سینئر وکیل سلمان اکرم راجہ کو پارٹی کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا تھا۔ پی ٹی آئی کے حالیہ احتجاج میں سرگرم کردار ادا نہ کرنے پر سلمان اکرم راجہ کو سخت تنقید کا سامنا تھا۔ دریں اثناء  تحریک تحفظ آئین پاکستان اور پشتون خوا میپ کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے پی ٹی آئی کیخلاف کریک ڈاؤن کی عدالتی انکوائری کا مطالبہ کردیا۔ کہا کہ پی ٹی آئی کارکنوں پر تشدد کے الزام میں وزیراعظم، وزیر داخلہ، آئی جی اسلام آباد کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، بانی پی ٹی آئی انتخابات جیت گئے پھر بھی جیل میں رکھا گیا، انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے، انہیں رہا کرنے سے آسمان نہیں گرے گا۔ پرامن احتجاج کرنے والے ہزاروں کارکنوں کو ڈی چوک اسلام آباد پر گولیوں کا نشانہ بنایا گیا، معاملے کی عدالتی انکوائری ہونی چاہیے۔  تحریک انصاف کی کور کمیٹی کا اجلاس  بیرسٹر گوہر کی زیر صدارت ہوا۔ نجی ٹی وی کی اندرونی کہانی کے مطابق اجلاس میں کہا گیا کہ کارکنوں کو سنگجانی کے بجائے ڈی چوک کون لے گیا، پارٹی ذمہ داری فکس کرے۔ پارٹی اس کا بھی تعین کرے کس نے کارکنوں کو تصادم کی طرف دکھیلا گیا۔ بانی نے ڈی چوک پہنچنے سے پہلے مذاکرات کی اجازت دیدی تھی تو کون رکاوٹ تھا۔ ڈی چوک احتجاج کے دوران مرکزی قیادت کہاں تھی؟ جواب لیا جائے۔ کور کمیٹی نے مبینہ طور پر جاں بحق کارکنوں کا ٹھوس ڈیٹا مرتب کرنے کی ہدایت کی گئی۔ کور کمیٹی نے اموات کے حوالے سے بنا ٹھوس شواہد مفروضوں پر بات کرنے سے روک دیا۔ بعض کارکنوں نے پارٹی قیادت سے اہم  فیصلوں پر اعتماد میں نہ لینے پر تحفظات کا اظہار کیا۔ سینئر قیادت نے کور کمیٹی کے آئندہ فیصلہ سازی میں اعتماد میں لینے کے مطالبے سے اتفاق کیا۔ بعض ارکان نے کارکنوں کو بے یارو مددگار چھوڑنے والوں کیخلاف وائٹ پیپر لانے کی تجویز دی۔ دریں اثناء پی ٹی آئی رہنما رہنما رئوف حسن نے کہا ہے کہ اسلام آباد میں  دھرنے کے خلاف ایکشن پر جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے، دھرنے میں شرکت نہ کرنے والے رہنمائوں سے متعلق پارٹی فیصلہ کرے گی، انکوائری کی جائے گی کون سا رہنما دھرنے میں تھا اور کون نہیں تھا، میں سیاسی ریلیوں میں شرکت نہیں کرتا پارٹی کے دیگر کام کرتا ہوں۔ میری اطلاع یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی سنگجانی میں جلسے کے لیے نہیں مانے تھے، بانی پی ٹی آئی سے دوسری ملاقات میں بھی وہ سنگجانی میں جلسے کے لیے قائل نہیں ہوئے تھے۔  سنگجانی میں احتجاج کرنے سے احتجاج کے مقاصد پورے نہیں ہوسکتے تھے، ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ اسلام آباد میں ہی کسی جگہ ریلی کو روکیں گے۔ فیصلہ کیا تھا کہ ڈی چوک پر بھی ابھی نہیں جائیں گے، علی امین گنڈاپور بشری بی بی کے تحفظ کے لیے دھرنے کی جگہ سے نکلے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ بشری بی بی گرفتار ہوں اس لیے وہاں سے گئے، علیمہ خان کو بھی سوال پوچھنے کا پورا حق ہے جیسے دیگر کارکنان کو حق ہے۔ کارکن پارٹی قیادت سے ناراض ہیں اور ان کی ناراضی کو دورکریں گے۔ مریم ریاض وٹو نے کہا ہے کہ بدھ کی پریس کانفرنس کے بارے میں بشریٰ بی بی کو نہیں بتایا گیا۔ بشریٰ بی بی  نے پریس کانفرنس سے اتفاق  نہیں کیا تھا۔ بدھ کو بات ہوئی تو بشریٰ بی بی نے کہا کہ ان کا فون ان کے پاس نہیں ہے۔ سیاسی کمیٹی میں بشریٰ بی بی غصے میں نہیں مایوسی کی کیفیت میں تھیں۔ بشریٰ بی بی نے کہا کہ آپ لوگ کہاں تھے مجھے اکیلے کیوں چھوڑا۔ مجھے زبردستی لے کر جا رہے تھے۔ آپ لوگ کہاں تھے۔ بشریٰ بی بی نے کہا آپ لوگ ڈی چوک پر نہیں پہنچے۔ سیاسی کمیٹی اجلاس میں بدھ کو بات ہوئی کہ بیرسٹر سیف نے جھوٹ بولا کہ بانی سنگجانی پر رضا مند ہو گئے۔ بانی نے علیمہ آپا کو تاریخ دی تھی۔ بشریٰ بی بی کو نہیں۔ بانی نے بشرِِیٰ بی بی کو کہا تھا آپ نے ڈی چوک جانا ہے۔ 
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) حکومتی ذرائع کا بتانا ہے کہ وفاقی کابینہ کی اکثریت نے خیبر پی کے میں گورنر راج نافذ کرنے کی حمایت کر دی۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے گورنر راج نافذ کرنے سے پہلے  پیپلز پارٹی، قومی وطن پارٹی اور  اے این پی سے مشاورت کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ وزارت قانون اور اٹارنی جنرل نے وفاقی کابینہ کو کے پی کے میں گورنر راج کے نفاذ کے حوالے سے اپنی رائے دے دی ہے۔ ذرائع کے مطابق خیبر پی کے نے خود 2 بار وفاق پر چڑھائی کر کے گورنر راج کا جواز پیدا کر دیا۔ وفاق پر چڑھائی میں سرکاری ملازمین اور سرکاری مشینری استعمال کی گئی۔ کابینہ ذرائع کا بتانا ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں صرف اس ایک نکاتی ایجنڈے پر غور ہوا۔ سیاسی اتحادیوں اور سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر گورنر راج سے متعلق حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ایڈووکیٹ جنرل آفس نے گورنر راج کے حوالے سے قانونی رائے وزیر اعلیٰ خیبر پی کے علی امین گنڈا پور کو دیدی۔ ذرائع وزیراعلیٰ ہاؤس کے مطابق قانونی رائے میں کہا گیا ہے کہ صوبے میں گورنر راج لگانے کے حالات نہیں۔ دریں اثناء  رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تحریک انصاف پر پابندی پر بات ہوئی تاہم کوئی اتفاق نہیں ہوا۔ ایک رائے ہے کہ خیبر پی کے میں گورنر راج لگ سکتا ہے۔ آئین میں راستہ ہے۔ ابھی ایسی صورتحال نہیں کہ خیبر پی کے میں گورنر راج لگایا جائے۔ بلوچستان اسمبلی نے تحریک انصاف پر پابندی پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ گورنر راج کے سیاسی اور آئینی مسائل ہیں۔ مذاکرات کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ صحافی مطیع اللہ جان پر آئس رکھنے کا غلط مقدمہ بنایا گیا ہے۔ علاوہ ازیں بلوچستان  اسمبلی نے اپوزیشن کی سخت مخالفت کے باوجود پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) پر پابندی کی قرارداد منظور کرلی گئی۔ قرارداد ایوان میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر میر سلیم کھوسہ نے پیش کی۔ اپوزیشن کی جانب سے حکومتی اتحادیوں کی اس قرارداد کی سخت مخالفت کی گئی اور واک آؤٹ کیا گیا۔ اپوزیشن رکن نواب اسلم رئیسانی نے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کی شان نہیں کہ وہ دوسری پارٹی پر پابندی کی بات کرے اور میں اس قرارداد کی مخالفت کرتا ہوں۔ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے رکن یونس زہری نے کہا کہ جے یو آئی نے 9مئی کے واقعات کی مذمت کی اور آج بھی کرتا ہوںے خیبرپختونخوا (کے پی) کے وزیراعلی علی امین گنڈاپور نے جو رویہ اختیار کیا، میں اس کی بھی مذمت کرتا ہوں۔ یونس زہری کا کہنا تھا کہ ہم پی ٹی آئی پر پابندی کی حمایت نہیں کریں گے۔ اپوزیشن کے رکن ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ اس وقت سے ڈرو کہ آپ لوگوں کو پی ٹی آئی میں جانا پڑے۔ دوسری طرف حکومتی اتحاد کی قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے بخت محمد کاکڑ کا کہنا تھا کہ  جو ملک اور ریاست کی ریڈ لائن پار کرے اس کے خلاف قرارداد منظور ہونی چاہیے۔ جماعت اسلامی کے رکن مولانا ہدایت الرحمان نے کہا کہ میں اس قرارداد کی مخالفت کرتا ہوں۔ اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا۔

ای پیپر دی نیشن