ہر سال 29نومبر کوفلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔اس کا آغاز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2 دسمبر 1977ء کواپنی ایک قرارداد کے ذریعے کیا تھا۔ اس وقت سے ہر سال کسی نہ کسی سطح پر اظہار یکجہتی فلسطین کا دن منایا جاتا ہے۔ چنانچہ پاکستان سمیت دنیا بھر سے آزادی پسند عوام آج اہل فلسطین کیساتھ اظہار یکجہتی کا دن کی نسبت سے جلسے، جلوس مظاہروں اور کانفرنسوں کا انعقاد کریں گے۔اغیار کی نظر میں دن گرزنے کے ساتھ ہی یہ سب کچھ بھولی بسری داستان ہو سکتا ہے مگر اس میں شک نہیں کہ مظلوم فلسطینی عوام جب اقوام عالم کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں ،اس کرب اوراذیت میں کوئی ذی شعور اس سے چشم پوشی نہیں کر سکتا ۔ اسرائیل کے مظالم کی چکی میں بچے بوڑھے جوان سب کٹ رہے ، خون میں نہائے جا رہے ،ان کو ذبح کیا جارہاہے ، گھرہسپتال اور تعلیمی ادارے گرائے جاچکے ہیں، غزہ کی پٹی فلسطینی مسلمانوں کیلئے جہنم بن چکی ہے ، زمین تنگ ہوچکی اور آسمان سیآتش وآہن کی بارش برس رہی ہے۔ حد یہ ہے کہ فلسطینی مسلمانوں کیلئے کوئی جائے پناہ نہیں رہی ہے۔
یہ بات طے ہے کہ فلسطین کے باشندوں کو صرف مسلمان ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔ ان کا جرم اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ وہ کلمہ گو ہیں ، محمد عربی ؐ کے امتی ہیں ، قرآن مجید کو کتاب ہدایت مانتے اور کعبۃ اللہ کو قبلہ مانتے ہیں۔ فلسطینی مسلمان تعداد کے اعتبار سے اگرچہ مٹھی بھر ہیں لیکن یہی مسلمان اسرائیلی عزائم کے سامنے آخری چٹان بن کر کھڑے ہیں۔ مسلمان ہونے کی وجہ سے اسرائیلی فوج فلسطینی مسلمانوں پر جو مظالم ڈھا رہی ہے انھیں دیکھ اور سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے اور دل لرز جاتے ہیں۔ اگر چہ جغرافیائی طور پر فلسطین ہم سے بہت دور ہے لیکن اگر دین کے رشتے کے اعتبار سے دیکھا جائے تو فلسطین ہم سے بہت قریب ہے۔ فلسطینی بھائیوں اور ہمارے درمیان سب سے مضبوط رشتہ ایمان کا رشتہ ہے جو دنیا کے تمام رشتوں سے مضبوط اور قریب ترین ہے۔
نبی مکرم رحمت عالم نے مسلمان کی جو صفات بیان فرمائی ہیں ان میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان امت واحدہ ہیں، ایک جسم کی مانند ہیں جسم کے ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے اور آپ نے مزید فرمایا مسلمان وہ ہے جو مصیبت میں اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے اور اسے تنہا نہیں چھوڑتا۔ مدد یا اظہار یکجہتی کے طریقے ہیں کبھی مظلوم کی مدد زبانی طور یا اخلاقی طور پر یا پھر کبھی عملی طور پر مدد کی جاتی ہے۔ فلسطین کے مسلمان اس وقت جس کرب واذیت سے گزررہے ہیں ان حالات میں ضروری ہے کہ ہم ان کی صرف اخلاقی اور مالی ہی نہیں بلکہ عملی اور عسکری مدد بھی کریں۔۔۔۔ وہ مدد جو محمد بن قاسم نے اپنی ایک مظلوم بہن کی پکار پر کی تھی، وہ مدد کریں جو طارق بن زیاد نے کی تھی، وہ مدد جو صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے مقابلے میں اہل فلسطین کی تھی اور وہ مدد جو محمود غزنوی نے کی تھی۔
جیسا کہ اس بات کا ذکر پہلے ہوچکا ہے اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن منانے کا آغاز77 19ء میں ہوا تھا گویا دنیا نصف صدی سے اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن مناتی چلی آرہی ہے۔نصف صدی کا یہ قصہ ہے پل دو پل کی بات نہیں۔ پچاس سال سے اظہار یکجہتی کا دن منانے کے باوجود فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں، ان کے مسائل سلجھنے کی بجائے الجھتے ہی چلے جارہے ہیں اور مسئلہ فلسطین سنگین تر ہوتا چلا جارہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مدد کے عملی تقاضے پورے نہیں کررہے بس زبانی کلامی ہی مدد کے نعرے لگاتے ہیں۔ ہمارے دل سوز سے خالی ہیں نگہ پاک نہیں اور پیغام محمد ؐ کا ہمیں کچھ بھی پاس نہیں۔ ہمارے حکمران اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد وحمایت کیلئے مخلص نہیں۔ حالانکہ مصیبت زدہ کی مدد اور اس کے ساتھ عملی طور پر اظہار یکجہتی کرنا ہمارے دین کا حکم ہے ، یہ عبادت بھی ہے ، انسانیت بھی اور خدمت خلق بھی ہے۔ جو مسلمان جانتے بوجھتے اور وسائل کی دستیابی کے باوجود اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد نہیں کرتے وہ مسلمان ہونے کا حق ادا نہیں کررہے اور ان کا امت محمدیہ علیہ السلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسے مسلمانوں پر اللہ دنیا میں بھی ذلت ورسوائی مسلط کردیتا ہے اور قیامت کے دن بھی رسوائی ان کا مقدر بنتی ہے۔آج اگر مسلمان دنیا میں ذلیل وخوار ہورہے ہیں تو اس کی منجملہ وجوہات کے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان بحیثیت ملت مردہ ہوچکے ہیں ، ان کے دل احساس سے عاری ہیں اور ایمان سے خالی ہیں۔ وہ اظہار یکجہتی کے تقاضوں کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی انھیں پورا کرتے ہیں۔
فی زمانہ ملت اسلامیہ کا بس ایک ہی کام رہ گیا ہے کہ دنیامیں جہاں بھی مسلمانوں پر ظلم ہو ان کیلئے جلوس نکالے جاتے ہیں ، جلسے کئے جاتے ہیں ، سیمنار منعقد کئے جاتے ہیں ، مقالے پڑھے جاتے ہیں ، اسلام دشمنوں کے جھنڈے جلائے جاتے ہیں مردہ باد اور زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ کرکے ہم سمجھتے ہیں کہ بس ہم نے اپنا فرض پورا کردیا ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے قراردادیں پاس کرنے ، جلسے کرنے ، جلوس نکالنے ، جھنڈے جلانے اور مذمت کی قراردادیں پاس کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے، نہ ہی اس طرح سے قومیں آزاد ہوتی ہیں، نہ ہی دشمنوں کے ٹینک اور طیارے تباہ ہوتے ہیں۔ 50برس کے عرصہ میں دنیا بھر کے مسلمان مجموعی طور پر مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے لاکھوں قرادادیں پاس کرچکے ہیں۔۔۔۔۔لیکن یہ قرادادیں کس حال میں ہیں۔۔۔۔۔۔؟
محض کاغذات کے پلندے اس کے علاوہ ان کی کچھ بھی حیثیت اور اہمیت نہیں۔ ان کاغذات کے پلندوں کو سمندر میں ڈالاجاسکتا ہے لیکن یہ قرادادیں اسرائیلی طیاروں کی مسلمانوں پر ہونے والی بمباری کو نہیں روک سکتیں اور نہ ہی مسئلہ فلسطین کے حل میں ممد ومعان ثابت ہوسکتی ہیں اس لئے کہ قوموں کی تاریخ تلوار کی دھار سے لکھی جاتی ہے۔
یہ بھی عجب طرفہ تماشا ہے کہ جس جنرل اسمبلی کے کہنے پر ہم ہر سال اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا دن مناتے چلے آرہے ہیں اسی جنرل اسمبلی نے29نومبر 1947ء کو ایک قرداد منظور کی جس کے نتیجے میں اسرائیل قائم ہوا۔اسرائیل کے حق میں جنرل اسمبلی نے جو قرارداد منظور کی۔۔۔۔۔یہ دوھاری خنجر تھا جو عالم اسلام کے قلب میں پیوست کردیا گیا اس قرارداد کی رو سے سرزمین فلسطین کو غیر منصفانہ طریقے سے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیااور ایک حصے میں اسرائیل کے نام سے ایک ریاست قائم کردی گئی تھی۔اسی جنرل اسمبلی نے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کادن منانے کی جو قراردادمنظور کررکھی ہے۔۔۔حقیقت میں یہ۔۔۔۔۔ایک جھنجھنا ہے جو سال میں ایک بار ہم بجالیتے اور خوش ہوجاتے ہیں۔بس 50برس سے ہم یہی کام کرتے چلے آرہے ہیں۔دوسری طرف اسرائیل کی جارحیت مسلسل جاری ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اسرائیل نے اپنے آپ کو مضبوط کیا ہے ، اپنے رقبے اور آبادی میں بھی اضافہ کیا ہے۔ جبکہ سرزمین فلسطین کے اصل وارث فلسطینی کمزور سے کمزور تر ہوچکے اور آٹے میں نمک کے برابر رہ گئے ہیں۔ عالم اسلام کو یہ بات جان لینی چاہئے کہ اسرائیل۔۔۔۔محض ایک ملک نہیں بلکہ صہیونی عزائم کی تکمیل کا ایک شیطانی ایجنڈا ہے۔ صہونیت کا اصل ٹارگٹ غزہ یا فلسطینی اتھارٹی نہیں بلکہ مسجد اقصی کی شہادت ہے۔ صیہونی قیادت مسجد اقصی کی بنیادوں پر ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور اس کے بعد عظیم تر اسرائیل کے قیام کا پلان بنائے بیٹھی ہے۔ اسی لئے غزہ کی پٹی پر دن رات بمباری کی گئی تاکہ بچے کھچے فلسطینی مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے اور پھر وہ وقت آجائے جب ان کے راستے میں معمولی سی مزاحمت کرنے والا بھی کوئی نہ رہے۔
آج جبکہ مسجد اقصی فریاد کناں ہے ، انبیاء کی سرزمین لہولہان ہے ، امریکہ سمیت یورپ کے تقریباََ تمام ممالک اسرائیل کے پشتیبان ہیں اور فلسطینیوں کی بدترین نسل کشی جاری ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ مسلمان قرادادیں پاس کرنے اور زبانی کلامی اظہار یکجہتی کرنے کی بجائے اپنے فلسطینی بھائیوں کے ساتھ عملی طور پر اظہار یکجہتی کریں وہ یکجہتی جس کا حکم ہمیں ہمارے دین نے اور ہمارے قرآن نے دیا۔یہ بات طے ہے کہ اگر کوئی شخص ہمارے گھر پر حملہ آور ہوجائے تو ہم اپنے گھر کی حفاظت کیلئے قراردادیں نہیں پاس کرتے بلکہ جان پر کھیل جاتے ہیں جبکہ بیت لمقدس تو ہمارا قبلہ اول ہے۔ مانند حرم پاک ہے اس کی حفاظت کیلئے بھی ہمیں جان ومال کی بازی لگانے کا عہد کرنا ہوگا۔
29نومبر۔۔۔۔ اہل فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا عالمی دن
Nov 29, 2024