مولانا حافظ اسعد عبید
حضرت ابو سعید خدری ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا جو شخص خلاف شرع بات دیکھے اسے زور بازو سے تبدیل کرے اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے کرے اور اگر ایسا نہ کر سکے تو دل سے اسے برا جانے اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔‘‘(مسلم شریف)اللہ رب العزت نے سورۃ العصر میں فرمایا: ’’زمانے کی قسم! انسان بڑے خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے اور ایک دوسرے کو حق بات کی وصیت کرتے رہے اور ایک دوسرے کو صبر کی وصیت کرتے رہے۔‘‘عربی زبان میں لفظ وصیت دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے، ایک معنی تو یہ لیا جاتا ہے کہ زندگی آخری لمحات میں ہدایت دینا کہ میرے مرنے کے بعد ایسا کرنا یاایسا نہ کرنا۔ اور وصیت کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ کسی شخص کو تاکید کے ساتھ نصیحت کرکے نیک کام کی ہدایت کی جائے۔
قرآن مجید میں لفظ وصیت ان دونوں معنوں میں آیا ہے۔ لیکن ہم اس وقت وصیت بمعنی نصیحت کے لے رہے ہیں ۔ اللہ رب العزت نے انسان کو خسارے اور گھاٹے میں سے نکلنے کے جو طریقے بتائے ہیں ان میں ایمان اور عمل صالح کے بعد ایک دوسرے کو حق بات اور صبر کی وصیت یعنی نصیحت کرنے میں ہے۔ معلوم ہوا کہ انسان اگر خود تو قرآن و سنت پر عمل کر رہا ہو، خود اعمال صالحہ کا پابند ہو تو اس کے لیے ایک فریضہ یہ بھی ہے کہ وہ دوسرے لوگوںکو بھی ایمان اور اعمال صالحہ کی طرف آنے کی نصیحت کرتا رہے۔ خصوصاً اپنے اہل و عیال اور دوست احباب کے برے اعمال کی طرف توجہ نہ دیتے ہوئے نصیحت کرنے سے غافل ہونا خسارے کا راستہ ہے۔ بسا اوقات انسان یہ سمجھتا ہے کہ بس ٹھیک ہے میں خود اپنے اعمال کا جواب دہ ہوں۔ میں خود نیک کام کر رہا ہوں دوسرا کیا کر رہا ہے مجھے غرض نہیں۔ایسا سوچ کر انسان وصیت یعنی نصیحت سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔ اس بات کا جواب اور نصیحت کا فلسفہ رسول اکرمؐ نے ایک خوبصورت مثال کے ذریعہ سمجھایا فرمایا کہ ایک کشتی میں کچھ لوگ سوار ہیں۔ منزل کی طرف رواں دواں ہیں کچھ لوگ کشتی کی اوپر والی منزل میں ہیں اور کچھ لو گ نچلی منزل میں ہیں۔ جب نچلی منزل والے اوپر پانی لینے کے لیے جاتے تو اوپر والوں کو تکلیف ہوتی۔ چنانچہ ایک شخص نے کشتی کے پیندے میں سوراخ کرنا شروع کر دیا۔ لوگوں نے کہا یہ کیا کر رہا ہے؟ اس نے جواب دیا تمہیں کیا، میں اپنی سیٹ کے نیچے سوراخ کر کے پانی حاصل کر رہا ہوں تمہیں تو کوئی تکلیف نہیں دے رہا ہوں۔ پھر رسول اللہ ؐنے فرمایا:’’ اگر وہ لوگ اس شخص کو کشتی میں سوراخ کرنے سے روک لیں تو وہ اس شخص کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی ڈوبنے سے بچا لیں گے ۔ورنہ وہ شخص جو اپنی نشست کی جگہ سوراخ کر رہا ہے اپنے انجام کے ساتھ باقی کشتی سواروں کو بھی لے ڈوب گا۔
بالکل اسی طرح ہم بھی معاشرے کی ایک ہی کشتی کے سوار ہیں لہٰذا اگر ہم اپنی جگہ نیک ہوں، با عمل ہوں لیکن دوسرا شخص برائی میں مبتلا ہو تو اب اس انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ وصیت یعنی نصیحت کر کے اسے برائی سے روکے۔ ورنہ اس کے برے اعمال اس نیک تک بھی پہنچیں گے اس لیے کہ رسول اکرمؐنے فرمایا:
’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم نیک باتوں کا حکم کرتے رہو اور بری باتوں سے روکتے رہو ورنہ عنقریب اللہ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب نازل کر دے گا پھر تم اللہ سے دعاء کرو گے اور تمہاری دعاء قبول نہیں کی جائے گی۔‘‘
باقی رہی یہ بات کہ اب نصیحت کا دور کہاں، تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میںاور رسول اللہؐ نے اپنے اسوہ حسنہ سے وصیت یعنی نصیحت کے آداب اور سلیقے سکھائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’بڑی سمجھدار اور عمدہ نصیحت کے ذریعہ اپنے رب کے راستے کی طرف بلائو۔ ‘‘
لہٰذا جب بھی نصیحت کرتے ہوئے سمجھداری کے تقاضے پورے نہ کیے جائیں تو پھر نصیحت کے انتہائی برے اثرات سامنے آتے ہیں جیسے نصیحت کرتے ہوئے اپنے آپ کو نیک پارسا ظاہر کرنا‘ دوسرے کو گنہگار ہونے کا احساس دلانا‘ نصیحت کرتے ہوئے تمسخر کا انداز اور دوسرے کی تحقیر کا لہجہ اپنانا ہر گز درست نہیں۔ رسول اللہ ؐ دوسرے شخص کے جذبات و احساسات کا خوب خیال فرماتے تھے۔ آپ کے قریبی صحابہ سے کوئی نامناسب بات سامنے آتی تو ناراضگی کا اظہار فرماتے تھے۔ رسول اکرمؐ دن کو لوگوں کو نصیحت فرماتے تو راتوں کو اللہ کے حضور گڑگڑاتے امت کے لیے دعائیں مانگتے اور امت کے گناہوں کی مغفرت مانگتے امت کے لیے اتنے فکر مند اور مہربان کہ ارشاد باری ہوا:
رسول اکرمؐ نے زندگی کے بہت سے مراحل میں کئی نصائح ارشاد فرمائی ہیںپیدائش سے لے کر مرنے تک کے مرحلے کے لیے وصیتیں فرمائیں اور پھر موت کے بعد دائمی زندگی کے لیے بھی خوب نصیحتیں فرمائیں۔ کبھی کبھی تو آپؐ نصیحت فرماتے ہوئے یہ بھی فرماتے کہ میں تمہیں وصیت کرتا ہوں جیسے ایک مرتبہ فرمایا :’’میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔‘‘
پھر صحابہ کرام ؓ بھی بسا اوقات آپؐسے رہنمائی طلب کرنے کی خاطر وصیت یعنی نصیحت کا لفظ استعمال کرتے جیسے حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ آپ ؐ وسلم سے عرض کیا گیا اوصنی۔ مجھے نصیحت کیجیے تو آپ نے فرمایا ’’لاتغضب‘‘ تو غصہ مت کر یہ سن کر اس شخص نے پھر بار بار یہ جملہ دہرایا تو آپ نے ہر بار فرمایا ’’لاتغضب‘‘ تو غصہ مت کر۔ معلوم ہوا کہ کسی بات کی اہمیت کے پیش نظر بار بار بھی ایک ہی نصیحت کو دہرانا چاہیے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں حق بات کی وصیت و نصیحت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)