ڈاکٹر علی اکبر الازہری ۔۔۔
مشرف آمریت سے تنگ آکر پاکستانی عوام نے فروری 2008ء کے الیکشن میں جس جوش و جذبے کیساتھ عوامی نمائندوں کو منتخب کیا تھا اس سے خاصی حد تک یہ امید قائم ہوگئی تھی کہ اب اس ملک کے مقدر میں مثبت تبدیلی کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ 9 سالہ آمریت میں ہونے والی زیادتیوں سے تنگ عوام کو انکے خوابوں کی تعبیر ملتی۔ ان کے دکھوں کا ازالہ ہوتا۔ انکی جان و مال عزت و آبرو کا تحفظ ہوتا اور انکی بنیادی ضرورتوں کا خیال کیاجاتا مگر عوامی حکومت بدقسمتی سے حالات میں بہتری لانے کی بجائے حالات مزیدخراب کرنے میں جُت گئی۔ مالیاتی اداروں کی صورتحال میں بہتری کے کئی ایک منصوبے ماہرین نے نئے وزیراعظم کو پیش کئے مگر سیاسی جوڑ توڑ میں مگن وزیراعظم سمیت کسی بااختیار شخصیت نے کوئی پیش رفت نہیں کی۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی طرف سے مرتب کردہ ’’نیشنل گورننس پلان‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ قومی سطح پر اصلاح کی خاطر مرتب کئے گئے اس پلان میں حکومت کو جنگی بنیادوں پر دلیرانہ اقدامات اٹھانے کی جو تجاویز دی گئی تھیں ان میں وزیروں اورمشیروں کی فوج ظفر موج میں نمایاں کمی کرکے حسب ضرورت اہل وزراء کی تقرری کا مشورہ تھا۔ علاوہ ازیں صحت، تعلیم، تعمیرات اور پولیس کے محکموںمیں کرپشن ختم کرنے کیلئے دیانت دار افسروں کی تعیناتی کو ضروری قرار دیا گیا تھا لیکن یہ مشاورتی پلان بھی دیگر مفید منصوبوں کی طرح حکومتی مصلحت کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔
نئی عوامی حکومت نے عوامی مینڈیٹ کو جس طرح عوامی خواہشوں اور امنگوں کے برعکس استعمال کیا اس کی معلوم جمہوری تاریخ میں شاہد ہی کوئی مثال مل سکے۔ حکومتی ’’کارکردگی‘‘ کا یہ سفر بہت تیزی سے جاری ہے لیکن یہ تیزی بہتری کی سمت نہیں بلکہ ابتری اور انارکی کی طرف ہورہی ہے۔ ہمارے اس دعوے کی تصدیق گذشتہ روز ’’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ایجنسی‘‘ کی طرف سے پیش کئے جانیوالے اعداد و شمار سے ہورہی ہے۔ یہ ایجنسی عالمی سطح پر مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کرتی ہے اور اب تک کے ریکارڈ کیمطابق اسکے اکثر نتائج حقیقت کے قریب رہے ہیں۔ اس عالمی تحقیقاتی ادارے نے اس سال دنیا کے 178 ممالک کے اعداد و شمار جمع کئے اور ان میں ہونے والی تبدیلیوں کو مختلف پیمانوں پر پرکھا اور جانچا گیا جس کے نتیجے میں وطن عزیز گذشتہ ایک سال میں دنیا کے کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں 42 ویں درجے سے گر کر 34 ویں درجے پر آگیا ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ دو سالوں میںپاکستان مجموعی طور پر 12 درجے نیچے آیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دنیا کے مقابلے میں نہ صرف اپنی سابقہ حالت برقراررکھنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ حکومتی بدانتظامی، اعلیٰ حکومتی عہدیداروںکی بدترین کرپشن اور باہمی رسہ کشی کے باعث قومی خودکشی کی طرف 12 قدم آگے بڑھ چکے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بدترین حالات کی طرف بڑھتے ہوئے ہمارے یہ قدم اب بھی رکے نہیں بلکہ بے شرمی ڈھٹائی اور کم بختی کے درجنوں مظاہرے ہر روز دکھائی دے رہے ہیں۔
گذشتہ روز ہمارے وزیراعظم نے فرمایا کہ ’’جس کے پاس کرپشن کے ثبوت ہیں وہ عدالت کے سامنے پیش کرے۔‘‘ اصولی طور پر تو ان کی بات ٹھیک ہے لیکن کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ اسی عدالت نے بدنام زمانہ مفاہمتی آرڈیننس کو کالعدم کرکے 8 ہزار سے زائدجرائم پیشہ افراد کو عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے جن میں سر فہرست بدقسمتی سے صدر مملکت خود ہیں۔ گیلانی صاحب سمیت پوری حکومتی مشینری صدر صاحب کو معصوم ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
حکومتی بے حسی کا دوسرا بڑا مظہر سٹیٹ بنک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ ہے جس کیمطابق ان دو سالوں میں 300 ارب روپے کرپشن کی نذر ہوگئے لیکن کرپشن کے خاتمے کیلئے قائم نیب خاموش تماشائی بن کر تماشادیکھ رہا ہے۔ اس نے کسی شخص یا ادارے کے خلاف قابل ذکر کارروائی نہیں کی۔ اسکی ساری محنتیں اور ذہانتیں حکومت کو کرپشن میں چھوٹ دینے سے متعلق اقدامات کے گرد گھومتی ہیں۔ سٹیٹ بنک نے حالیہ کرپشن کے باعث آئندہ دنوں میں شدید مالی بحران اورمہنگائی کا خدشہ ظاہر کیا ہے لیکن کیا مجال کہ پتھر کے بنے ہوئے حکومتی عہدیداروں کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔ الٹا اس حکومتی ٹولے کا سرغنہ گذشتہ روز نئے مفاداتی اتحادکی زمین ہموارکرنے کیلئے چوہدری برادران کے پاس پہنچ گیا تاکہ سابق اورموجودہ کرپٹ عناصر مل کر قوم کی رگوں سے بقیہ خون بھی چوس لیں۔
مذکورہ عالمی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ 178ممالک کی لمبی قطار میں حسب سابق اس مرتبہ بھی افغانستان، صومالیہ اورعراق جیسے اسلامی ممالک کرپشن اور بدانتظامی میں پوری دنیا میں اول نمبر قرار دیئے گئے ہیں جبکہ ڈنمارک، ناروے، نیوزی لینڈ، سنگاپور اورسویڈن جیسے ’’بے دین‘‘ ممالک جنت نظیر ماحول برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ پہلو ہمارے لئے فکر و تدبر کے کئی پیغام لئے ہوئے ہے۔ ہمیں بطور مسلمان ان کمزوریوں پر غور کرنا چاہئے جو عالمی برادری میں امت کی تباہ حالی کا موجب ہیں۔
عین اس وقت جب نوشہرہ سے لیکر کراچی تک بھپرا ہوا پانی شہروں اور بستیوں کو نگل رہا تھا حکومت عدالت عظمیٰ کے ساتھ جاری ’’مقابلہ‘‘ جیتنے کے حیلے دریافت کرنے میں پوری مالی اور ذہنی کاوشوں سے مصروف تھی۔ فاٹا کے ڈرون حملوں اور کراچی کی ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں ہر روز بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتاہے۔ انکے ورثاء کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس مشکل وقت سے قوم کو جلد نجات عطا فرمائے اور ہمیں اپنی شامتِ اعمال سے واگزار فرمائے۔
مشرف آمریت سے تنگ آکر پاکستانی عوام نے فروری 2008ء کے الیکشن میں جس جوش و جذبے کیساتھ عوامی نمائندوں کو منتخب کیا تھا اس سے خاصی حد تک یہ امید قائم ہوگئی تھی کہ اب اس ملک کے مقدر میں مثبت تبدیلی کے آثار نمایاں ہورہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ 9 سالہ آمریت میں ہونے والی زیادتیوں سے تنگ عوام کو انکے خوابوں کی تعبیر ملتی۔ ان کے دکھوں کا ازالہ ہوتا۔ انکی جان و مال عزت و آبرو کا تحفظ ہوتا اور انکی بنیادی ضرورتوں کا خیال کیاجاتا مگر عوامی حکومت بدقسمتی سے حالات میں بہتری لانے کی بجائے حالات مزیدخراب کرنے میں جُت گئی۔ مالیاتی اداروں کی صورتحال میں بہتری کے کئی ایک منصوبے ماہرین نے نئے وزیراعظم کو پیش کئے مگر سیاسی جوڑ توڑ میں مگن وزیراعظم سمیت کسی بااختیار شخصیت نے کوئی پیش رفت نہیں کی۔ سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کی طرف سے مرتب کردہ ’’نیشنل گورننس پلان‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ قومی سطح پر اصلاح کی خاطر مرتب کئے گئے اس پلان میں حکومت کو جنگی بنیادوں پر دلیرانہ اقدامات اٹھانے کی جو تجاویز دی گئی تھیں ان میں وزیروں اورمشیروں کی فوج ظفر موج میں نمایاں کمی کرکے حسب ضرورت اہل وزراء کی تقرری کا مشورہ تھا۔ علاوہ ازیں صحت، تعلیم، تعمیرات اور پولیس کے محکموںمیں کرپشن ختم کرنے کیلئے دیانت دار افسروں کی تعیناتی کو ضروری قرار دیا گیا تھا لیکن یہ مشاورتی پلان بھی دیگر مفید منصوبوں کی طرح حکومتی مصلحت کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔
نئی عوامی حکومت نے عوامی مینڈیٹ کو جس طرح عوامی خواہشوں اور امنگوں کے برعکس استعمال کیا اس کی معلوم جمہوری تاریخ میں شاہد ہی کوئی مثال مل سکے۔ حکومتی ’’کارکردگی‘‘ کا یہ سفر بہت تیزی سے جاری ہے لیکن یہ تیزی بہتری کی سمت نہیں بلکہ ابتری اور انارکی کی طرف ہورہی ہے۔ ہمارے اس دعوے کی تصدیق گذشتہ روز ’’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل ایجنسی‘‘ کی طرف سے پیش کئے جانیوالے اعداد و شمار سے ہورہی ہے۔ یہ ایجنسی عالمی سطح پر مختلف ذرائع سے اعداد و شمار جمع کرتی ہے اور اب تک کے ریکارڈ کیمطابق اسکے اکثر نتائج حقیقت کے قریب رہے ہیں۔ اس عالمی تحقیقاتی ادارے نے اس سال دنیا کے 178 ممالک کے اعداد و شمار جمع کئے اور ان میں ہونے والی تبدیلیوں کو مختلف پیمانوں پر پرکھا اور جانچا گیا جس کے نتیجے میں وطن عزیز گذشتہ ایک سال میں دنیا کے کرپٹ ترین ممالک کی فہرست میں 42 ویں درجے سے گر کر 34 ویں درجے پر آگیا ہے۔ یاد رہے کہ گذشتہ دو سالوں میںپاکستان مجموعی طور پر 12 درجے نیچے آیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تیزی سے ترقی کرتی ہوئی دنیا کے مقابلے میں نہ صرف اپنی سابقہ حالت برقراررکھنے میں ناکام رہے ہیں بلکہ حکومتی بدانتظامی، اعلیٰ حکومتی عہدیداروںکی بدترین کرپشن اور باہمی رسہ کشی کے باعث قومی خودکشی کی طرف 12 قدم آگے بڑھ چکے ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ بدترین حالات کی طرف بڑھتے ہوئے ہمارے یہ قدم اب بھی رکے نہیں بلکہ بے شرمی ڈھٹائی اور کم بختی کے درجنوں مظاہرے ہر روز دکھائی دے رہے ہیں۔
گذشتہ روز ہمارے وزیراعظم نے فرمایا کہ ’’جس کے پاس کرپشن کے ثبوت ہیں وہ عدالت کے سامنے پیش کرے۔‘‘ اصولی طور پر تو ان کی بات ٹھیک ہے لیکن کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ اسی عدالت نے بدنام زمانہ مفاہمتی آرڈیننس کو کالعدم کرکے 8 ہزار سے زائدجرائم پیشہ افراد کو عدالت کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے جن میں سر فہرست بدقسمتی سے صدر مملکت خود ہیں۔ گیلانی صاحب سمیت پوری حکومتی مشینری صدر صاحب کو معصوم ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
حکومتی بے حسی کا دوسرا بڑا مظہر سٹیٹ بنک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ ہے جس کیمطابق ان دو سالوں میں 300 ارب روپے کرپشن کی نذر ہوگئے لیکن کرپشن کے خاتمے کیلئے قائم نیب خاموش تماشائی بن کر تماشادیکھ رہا ہے۔ اس نے کسی شخص یا ادارے کے خلاف قابل ذکر کارروائی نہیں کی۔ اسکی ساری محنتیں اور ذہانتیں حکومت کو کرپشن میں چھوٹ دینے سے متعلق اقدامات کے گرد گھومتی ہیں۔ سٹیٹ بنک نے حالیہ کرپشن کے باعث آئندہ دنوں میں شدید مالی بحران اورمہنگائی کا خدشہ ظاہر کیا ہے لیکن کیا مجال کہ پتھر کے بنے ہوئے حکومتی عہدیداروں کے کانوں پر جوں بھی رینگی ہو۔ الٹا اس حکومتی ٹولے کا سرغنہ گذشتہ روز نئے مفاداتی اتحادکی زمین ہموارکرنے کیلئے چوہدری برادران کے پاس پہنچ گیا تاکہ سابق اورموجودہ کرپٹ عناصر مل کر قوم کی رگوں سے بقیہ خون بھی چوس لیں۔
مذکورہ عالمی تحقیقاتی ادارے کی رپورٹ کا ایک اور افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ 178ممالک کی لمبی قطار میں حسب سابق اس مرتبہ بھی افغانستان، صومالیہ اورعراق جیسے اسلامی ممالک کرپشن اور بدانتظامی میں پوری دنیا میں اول نمبر قرار دیئے گئے ہیں جبکہ ڈنمارک، ناروے، نیوزی لینڈ، سنگاپور اورسویڈن جیسے ’’بے دین‘‘ ممالک جنت نظیر ماحول برقرار رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ پہلو ہمارے لئے فکر و تدبر کے کئی پیغام لئے ہوئے ہے۔ ہمیں بطور مسلمان ان کمزوریوں پر غور کرنا چاہئے جو عالمی برادری میں امت کی تباہ حالی کا موجب ہیں۔
عین اس وقت جب نوشہرہ سے لیکر کراچی تک بھپرا ہوا پانی شہروں اور بستیوں کو نگل رہا تھا حکومت عدالت عظمیٰ کے ساتھ جاری ’’مقابلہ‘‘ جیتنے کے حیلے دریافت کرنے میں پوری مالی اور ذہنی کاوشوں سے مصروف تھی۔ فاٹا کے ڈرون حملوں اور کراچی کی ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں ہر روز بے گناہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتاہے۔ انکے ورثاء کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اللہ تعالیٰ اس مشکل وقت سے قوم کو جلد نجات عطا فرمائے اور ہمیں اپنی شامتِ اعمال سے واگزار فرمائے۔